Skip to main content

قضیہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں

Submitted by talhaoffice03@… on
Urdu
 قضیہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی  قراردادیں

اقوام متحدہ کے قیام(24 اکتوبر 1945)کے بعد سے جنرل اسمبلی نے قضیہ فلسطین و اسرائیل سے متعلق متعدد قراردادیں منظور کی ہیں، تاہم بحیثیت مجموعی یہ قراردادیں فلسطین کو آزادی دلوانے میں ناکام رہیں نیز اسرائیل کو فلسطینی زمینوں کو ہڑپنے اور اہلِ فلسطین پر مظالم اور بدترین انسانی حقوق کی پامالی سے غاصب ریاست کو باز رکھنے میں  اب تک بے ثمر ثابت ہوئی ہیں۔ اس تحریر میں چند اہم ترین قراردادوں کا اجمالی تذکرہ مقصود ہے۔

قرارداد 181:فلسطین کے برطانوی انتداب کی تقسیم (29 نومبر 1947)

قرارداد 181 سب سے دیرپا اثرات والی قرار داد ہے۔ مانا جاتا ہے کہ اس کے نفاذ میں ناکامی خطے کے تمام مسائل پر اب تک حاوی رہی ہے۔ اس قرارداد میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ برطانیہ کے زیر انتظام فلسطین کے علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے: ایک عربوں کے لیے اور دوسری یہودیوں کے لیے، جس میں یروشلم کو خصوصی بین الاقوامی حیثیت دی جائے۔

فلسطین میں صہیونیوں کی نمائندگی والی ایجنسی نے اس قرارداد کو قبول کر تاہم عرب ملکوں نے اسے مسترد کر دیا ۔ فوجی محاذ آرائی ہوئی جس کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے نکال دیا گیا اور اسرائیل کی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔

جنرل اسمبلی کا ووٹ بھی متنازع رہا ۔ 33 ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا، جب کہ 13 (بنیادی طور پر عرب اور مسلم ممالک) نے جن میں ہندوستان بھی شامل تھا،اس تجویز کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ برطانیہ سمیت دس ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

اس موقع پر عراق کے وزیر خارجہ فضل جمال نے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ مذکورہ تقسیم سے مشرق وسطیٰ میں یہودی عرب تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔ ان کے بقول ’’اندرونِ فلسطین سے زیادہ فلسطین سے باہر عرب دنیا میں یہودیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صرف عراق میں تقریبا ًڈیڑھ لاکھ یہودی آباد ہیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ سیاسی و معاشی حقوق میں شریک ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان موافقت و اتفاق پایا جاتا ہے۔ لیکن فلسطین کے عربوں پر مسلط کی جانے والی کسی بھی ناانصافی سے عراق میں یہودیوں اور غیر یہودیوں کے درمیان اس موافقت میں خلل پڑے گا۔ اس سے بین مذہبی تعصب اور نفرت کو فروغ ملے گا۔‘‘

ملحوظ رہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں یہودیوں کونقل مکانی کے لیے آمادہ کیا گیا یا انھوں نے خود وہ علاقے چھوڑ کر نوزائیدہ ریاست کا رخ کیا۔

قرارداد 2253:اسرائیل کے ذریعے یروشلم کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی مذمت
(4 جولائی 1967)

چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیلی افواج نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ پٹی، گولان کی پہاڑیوں اور جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا۔ اگرچہ سینا بالآخر مصر کو واپس کر دیا گیا، لیکن ان علاقوں پر قبضہ فلسطین و اسرائیل تنازع میں ایک غالب مسئلہ رہا ہے۔ قرارداد 2253 میں اسرائیل کے ذریعے ہروشلم پر خودمختاری کا دعویٰ کرنے کی کوششوں کی اقوام متحدہ نےپہلی بار مذمت کی ۔اگرچہ یہ قرارداد متفقہ تھی (99 حق میں، 20 گریز) جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ’’اپنے پہلے کے کیے گئے تمام اقدامات کو کالعدم کرے اور فوری طور پر ان اقدامات سے باز رہے جو یروشلم کی حیثیت کو تبدیل کرنے والے ہوں۔‘‘ ملحوظ رہے کہ اقوام متحدہ نے اسرائیل کو 1980 میں شہر کو باضابطہ طور پر ضم کرنے سے باز رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

مشرقی یروشلم اور یہودیوں کے لیے ٹیمپل ماؤنٹ اور مسلمانوں کے لیے حرم شریف کے نام سے مشہور ڈھانچے پر قبضے کے نتیجے میں اس مقدس مقام کی حیثیت کے بارے میں بار بار تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ اس مقام پر قبضے کے بعد اسرائیلی فوج کے چیپلن ربی شلومو گورن (Shlomo Goren)نے سینٹرل کمانڈ کے اس وقت کے سربراہ جنرل اوزی نارکس(Uzi Narkiss) سے اصرار کیا تھا کہ وہ جنگ کی آڑ میں گنبدصخرہ کو ڈائنامائٹ سے تباہ کردے۔ ٹیمپل ماؤنٹ پر تیسرے مندر کی تعمیر ایک طویل عرصے سے صیہونیوں کا خواب رہا ہے اور اس وقت نارکس نے گورن کو قبۃ الصخرہ کو تباہ کرنے کی تجویز پیش کرنے پر جیل میں ڈالنے کی دھمکی دی تھی۔ البتہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچائے جانے کے نتیجے میں بارہا جھڑپیں اور احتجاج ہوچکے ہیں۔

قرارداد 3379:صیہونیت کو نسل پرستی کی ایک شکل کے طور پر تسلیم کیا جانا
(10 نومبر 1975)

اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کردہ ایک اہم قرارداد۔ قرارداد 3379 نے یہ اصول قبول کیا کہ صیہونیت بحیثیتی نظریہ اپنی فطری میں نسل پرستانہ ہے اور جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ حکومت (apartheid) اور روڈیشیا (اب زمبابوے) میں سفید فام اقلیتی (white supermacist)حکومت سے اس کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

اسرائیل نے اس قرارداد پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور عرب ممالک کے ذریعے صیہونیوں کے عمائدین کے پروٹوکولز (The Protocols of the Elders of Zion)کی نقلیں بانٹنے کو قرارداد پیش کرنے والوں کی منافقت ٹھہرایا۔ اسرائیلی سفیر چیم ہرزوگ (Chaim Herzog)نے اپنی تقریر کے اختتام پر قرارداد کی نقل کو پھاڑ تے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے لیے یہودی عوام کے لیے نفرت، جھوٹ اور تکبر پر مبنی یہ قرارداد کوئی اخلاقی یا قانونی اہمیت نہیں رکھتی۔ ہمارے لیے، یہودیوں کے لیے، یہ کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور ہم اس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کریں گے۔‘‘

قرارداد کی حمایت میں 72 اور مخالفت میں 35 ووٹ پڑے جب کہ 32 ممالک نے ووٹنگ سے گریز کیا۔ اس قرارداد سے صیہونیت کی نوعیت پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ مخالفین نے دلیل دی کہ یورپی یہودیوں کا عرب دنیا کے وسط میں یہودی ریاست قائم کرنے کا نظریہ فطری طور پر نسل پرستانہ اور نوآبادیاتی تھا، جب کہ دوسروں کا استدلال تھا کہ صیہونیت یہودی عوام کی قومی آزادی کی تحریک کی نمائندگی کرتی ہے۔

البتہ اس قرارداد کو 1991 میں اس وقت کالعدم کردیا گیا جب اسرائیل نے اس سال ہونے والی میڈرڈ کانفرنس میں شرکت کی پیشگی شرط اسے منسوخ کرنے کی عائد کر دی تھی۔

قرارداد 4321:پہلا انتفاضہ (3 نومبر 1988)

8 دسمبر 1987 کو ایک اسرائیلی فوجی ٹرک نے غزہ میں جبالیہ رفیوجی کیمپ کے قریب فلسطینیوں کے ایک گروپ کو کچل دیا، جس میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ اسرائیلی حکم رانی کے خلاف عوامی بغاوت کا محرک ثابت ہوا جس نے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی حیثیت کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ قرارداد نمبر 4321 میں اسرائیل سے مقبوضہ علاقوں سے دست برداری کے مطالبے پر زور ڈالا گیا اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو امداد اور یکجہتی پیش کریں۔ قرارداد میں یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی اسرائیل کی مسلسل پالیسیوں اور طرز عمل اور خاص طور پر اسرائیلی فوج اور آباد کاروں کے ذریعے فائرنگ جیسے اقدامات کی مذمت کی گئی جس کے نتیجے میں نہتے شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔

انتفاضہ کے نتیجے میں بالآخر اسرائیلیوں اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا اور اوسلو معاہدے کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔

قرارداد 6719:فلسطین کو مشاہد ریاست کے طور پر تسلیم کرنا (29 نومبر 2012)

نومبر 2012 میں جنرل اسمبلی نے فلسطین کو ایک غیر رکن مشاہدریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ اگرچہ یہ ووٹ بڑی حد تک علامتی تھا ۔ فلسطین اب ہولی سی کی سطح پر تھا ۔ اس نے فلسطینی اتھارٹی کو بین الاقوامی فوجداری عدالت تک رسائی کی اجازت دی، جس سے یہ امکان پیدا ہوا کہ اسرائیلی حکام کو جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

قرارداد منظورہوئی جس میں 138 ووٹ حق میں پڑے اور 9 مخالفت میں ، جب کہ 41 ممالک نے ووٹنگ سے گریز کیا۔ اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے پی اے کے صدر محمود عباس نے مندوب ممالک پر زور دیا کہ وہ ’’فلسطینی ریاست کا پیدائشی سرٹیفکیٹ جاری کریں۔‘‘

اسرائیلی اور امریکی حکام نے اس قرارداد کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ یہ اوسلو معاہدے کی روح کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم دنیا کے ایک بڑے حصے کے ذریعے فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنا فلسطین کے مسئلے کے بارے میں بدلتے ہوئے عالمی رویے کی نشان دہی کرتا ہے۔ نیز بار بار کی جنگیں اور اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی اور مظالم سے بھی دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مبذول ہوئی ہے۔

قرارداد ای ایس 10/22 غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر فوری روک اور جنگ بندی (12 دسمبر 2023)

اسرائیل کی مسلسل شرارتوں اور مسجدِ اقصیٰ پر متعدد فوجی کارروائیوں کے جواب میں 7 اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرحدوں میں گھس کر حملہ کردیا اور بہت سے ہلاک کردیا نیز درجنوں اسرائیلی شہریوں کو گرفتار کرکے یرغمال بنالیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے اب تک کی بدترین فوجی کارروائی کی اور فضائی حملے کرکے غزہ کے کم و بیش تمام شہری علاقوں اور بستیوں کو تاراج کردیا۔ اس کے نتیجے میں کم و بیش 18000 فلسطینی شہید ہوگئے جن میں 8000 بچے شامل ہیں۔ 27 اکتوبر 2023 کو ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد ای ایس -10/21 منظور کی جس میں انسانی بنیادوں پر جنگ میں توقف کا مطالبہ کیا ۔ اس تجویز کے حق میں 121 ووٹ پڑے اور مخالفت میں 14 اور 44 ممالک نے ووٹنگ سے گریز کیا۔ 8 دسمبر 2023کو سلامتی کونسل نے فریقین سے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مطالبے کی تحریک پر ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ تاہم اس کے حق میں اکثریت رائے ہونے کے باوجود امریکہ کی جانب سے ویٹو کردیے جانے کی بنا پر قرار داد منظور نہ ہوسکی۔ 12 دسمبر 2023 کو جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ شہریوں کی حفاظت اور قانونی و بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تناظر میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ اس تحریک کے حق میں 153 ممالک نے ووٹ دیے جب کہ اسرائیل، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت 10 ممالک نے مخالفت میں ووٹنگ کی۔ ہندوستان نے بھی جنگ بندی کے حق میں رائے دی۔ 23 ممالک نے ووٹنگ سے گریز کیا۔ اس موقعے پر یورپی یونین کے سفیر جوزف بوریل نے کہا کہ ’’اسرائیل نے غزہ میں اتنی غارت گری کی ہے جو اپنے تناسب کے اعتبار سے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی میں ہونے والی تباہی سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ ملحوظ رہے کہ فریقین اس قرارداد کے نفاذ کے پابند (non-binding)نہیں ہیں تاہم یہ قرارداد اسرائیل کی بربریت کے خلاف عالمی رائے کی عکاس ہے۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک، جنگ بند نہیں ہوئی، اور غزہ و مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور عورتوں پر، اسرائیل کی جارحیت کا ہنوز سلسلہ جاری ہے۔

(مراجع : الجزیرہ، ٹی آرٹی ورلڈ، وکیپیڈیا)