میں جو ابھرا تو سن رکھا تھا
کہ رزم حق و باطل یہاں پر
جاری ہے ہر سو جہاں تم چلو گے
وہ مختصر سی قوت فقط چند کاندھے
جو محو ہیں بطلان طاغوت و جہل میں
حیرانی تھی مجھ کو کہ کیسے یہ دنیا
جو جانشین روسو،فلر، زیر نگیں ہے
جس کی کنڈلی میں پنپتا ہے لہو
اس انجمن کا جو حزن یقیں ہے
جس کی رگوں میں بہتا
سوز روسو، فلر، ہیگل زیر نگیں ہے
پھر آنکھوں سے دیکھا وہ عالم تو مانا
کہ مختصر سے فقط وہی چند کاندھے
بر سر پیکار ہیں حزن یقین کے
وہ نام لیوا ہیں خدائے لم یزل کے یہاں
وہ والی زید بن عمر کے یہاں
جو فضائے فرعونیت میں ہیں صدائے موسیٰ
جو دربار طاغوت میں سیدھے کھڑے ہیں
کمر ہے سیدھی صراط انکی نظر
یاں کوئی نہیں ان کی مثل اے صباء
دیکھو تو لگتے ہیں جیسے کہ اک غزل
یوں نازک و نرم ہوں جیسے کہ ململ
صحبت میں ان کی وہ چاشنی ہے
جیسے کہ شیلے کے مصروں سے ابھرے
جیسے کہ شیکسپئر کے کرداروں میں سیزر
جیسے شاعری میں ابھرتی ہوئی غزل
خدا جانے کس سو جائے ان کی نظر
خدا جانے کس رو یہ پھر دیں سحر
خدا جانے کتنا ظرف ہے ان میں
یہ گنتی میں چند نغمہ سرا ہیں
ارباً واحداً أم ألف ربِّی
گنتی میں چند یہی کہہ رہے ہیں
ادین اذا تقسمتہ الأمور
سکندر کی مانند، ہمالہ کے اوپر
گنگا کنارے سے سندھو ندی تک
انکے جسموں سے بہتے قطروں سے
عالم کی رخسار سے جہل دھل رہی ہے
زبان و عمل کے یہ رازداں ہیں
رکن جمعیت یہ جانشین سید
زندہ ہیں ہر سو پائندہ ہیں ہر سو