پنجاب اور پاکستان کے دوسرے علاقوں کے عام لوگ سمجھتے ہیں کہ خیبر پختون خواہ کے سارے لوگ پختون ہیں،شاید اس لیے وہ ہر اس شخص کو جس کا تعلق خیبر پختون خواہ سے ہو پٹھان یا خان کہہ کر پکارتے ہیں۔خیر ان سے کیا گلہ یہاں کے دوسرے قوموں کے لوگ خود بھی اپنے آپ کو پختون یا پٹھان کہتے ہیں۔
میرا ایک دوست جو کہ مزاجا قوم پرست ہے،ایک دن پختونوں کی مظلومیت کی فریاد کرنے لگا تو میں نے اسے کہا "یار تم پختون نہیں تو پھر کیوں پختون قوم پرستی کررہے ہو؟"اس نے فخر اور احساس محرومی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جواب دیا " میں کیوں پختون نہیں،میں خیبر پختون خواہ کا رہنے والا پختون ہی ہوں" اس کے جذبات کے احترام میں،میں کچھ لمحوں کے لئے چپ چاپ اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی معصومیت دیکھتا رہا۔ جذبات سرد پڑتے ہی میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ آپ جس نسل سے تعلق رکھتے ہو اس کا پشتونوں کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔آپ کا تعلق ہند یورپی (indo-european) کے ذیلی شاخ ہند آریائی(indo-aryan) سے ہیں۔دراصل ہند آریائی ١۵٠٠ قبل مسیح میں وسطی ایشیا کے علاقوں سے ہجرت کرکے افغانستان اور ہندوستان کے علاقوں میں پھیل گئے تھے۔ان کا ایک گروہ شمال کی طرف آیا اور موجودہ شمالی پاکستان،شمالی افغانستان اور کشمیر کے علاقں میں بس گئے۔اس سارے شمالی علاقے کو داردستان اور یہاں کی زبانوں کو داردی کہا جاتا ہیں۔ داردستان کا علاقہ پانچ ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں کشمیر،باجوڑ،چترال،سوات اور گلگت شامل ہیں۔
لسانی ادب میں ہند آریائی مزید سات گروہوں میں تقسیم ہوئی ہیں جن میں کشمیری،شین،کوہ ،کیلاش،کوہستانی گروپ،پشائی گروپ اور کنڑوادی گروپ شامل ہیں اور آپ کا تعلق کوہستانی گروپ کے ذیلی شاخ توروالی سے ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے داردی لوگ لوگ زمانہ قدیم سے خیبر پختونخواہ کے بالائی اضلاع میں رہتے تھے جنہیں بعد میں محمود غزنوی اور یوسفزئیوں کے حملوں نے پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔
خیبر پختون خواہ میں کل ٢٦ زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں ١۵ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ضلع سوات میں ٧ زبانیں پشتو،گجرو ،گاوری،توروالی،کھوار اشوجو،اور بدیشی بولی جاتی ہیں۔ان میں سے بدیشی تقریبا ختم ہو چکی ہیں جبکہ اوشوجو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہر وہ زبان جو نصاب اور میڈیا کا حصہ نہ ہو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہوتی ہیں۔سوات کے اندر بولی جانی والی ٧زبانوں میں پشتو کے علاوہ کوئی بھی زبان نصاب کا حصہ نہیں اور ہی میڈیا کا۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کم ازکم پرائمری تک تعلیم مقامی(مادری زبان) میں دی جائے اس سے نہ صرف مقامی زبانیں محفوظ ہوں گے بلکہ معیار تعلیم بھی بڑھے گا۔جس کا ایک کامیاب تجربہ ایک این جی او گاوری زبان میں پرائمری تعلیم دیکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی زبان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
قوم اور نسل کی بنیاد پر افضلیت کا دعوی لایعنی ہے لیکن اپنی قوم اور نسل کو بھلانایا اپنی نسبت کسی اور قوم یا نسل کی طرف کرنا بدترین گناہ ہے جس کی طرف ہمیں حدیث مبارکہ میں بھی اشارہ ملتا ہے۔افضلیت کا معیار تقوی ہے البتہ چھوٹی زبانوں کے تحفظ سے ایک طرف ثقافتی تنوع بڑھے گا جبکہ دوسری طرف یہ زبانیں معدومیت کے خطرے سے بچ سکیں گے۔