Skip to main content

وجود باری تعالیٰ پرقرآن کے دلائل

Submitted by admin on
 اردو
Allah

مخلوقات میں بے شمار نشانیوں کو دیکھ کر بھی خالق کو نہ پہچاننا بدترین عقلی تساہل

 

قرآن میں الحاد کے مقابلے میں اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر بہ کثرت دلائل دیے گئے ہیں ۔ان دلائل کو پرزور طریقے سے لیکن فہمائش اور عمدہ نصیحت کے انداز میں تکرار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔آفاق و انفس سے ایسے دلائل پڑھ کر بے اختیار دل پکار اٹھتا ہےکہ کائنات کا ایک عظیم خالق ہے جو مدبرہے،منتظم ہے ،پالنہار ہے اور قادرِمطلق ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعورو تعقل کی عظیم نعمتوں سے مالامال کیا اور اس کے اندر ایسی اخلاقی حس رکھ دی ہےجس کی مددسے وہ حق و باطل ،نیکی و بدی اور سچ و جھوٹ میں فرق کرسکتا ہے۔ان نعمتوں اور احسانات کے درمیان انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے ۔پہلا امتحان عقل کا امتحان ہے کہ کون ہے جواللہ کی دی ہوئی عقل و شعور کی قوت کو استعمال کرکے اپنے خالق کو پہچانتا ہے؟دوسرا امتحان یہ ہے کہ اپنے خالق کو پہچاننے کے بعد کون ہے جو اس کی بندگی کرنے کے لیے تیار ہوتاہے؟انسانوں کو علم کے مختلف ذرائع دیے گئے ہیں جن میں دوذرائع بہت عام ہیں : حواسِ خمسہ اور عقل ۔علم کی بھی دوقسمیں ہیں ۔ایک قسم وہ ہے جو مشاہدات و تجربات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہےجس میں حواسِ خمسہ اور عقل دونوں کا استعمال ہوتا ہے۔علم کی دوسری قسم ہے علمِ غیب ۔ حقائق صرف وہ نہیں ہیں جو ہمارے حواس اور عقل کی گرفت میں آتے ہیں ۔حقائق کی ایک ایسی دنیا بھی ہے جو حواس وعقل کی رسائی سے ماورا ہے۔مثلاً وہ سوالات جو خالق ،مقصدِ زندگی اور زندگی بعد موت سے متعلق ہیں۔ان حقائق کو سائنس اورفلسفہ سے دریافت نہیں کیا جاسکتا ۔ ان حقائق کو وحی کے ذریعے سے ہی معلوم کیا جاسکتا ہے۔علمِ غیب کےلیے علم کے تیسرے ذریعے کو استعمال کیا گیا ہےجس کو وحی کہا جاتا ہے۔وحی کا علم مشاہدہ اور تجربات کے بجائے براہِ راست رسولوں اور اللہ کی نازل کردہ کتابوں کے ذریعے انسانوں کو دیا جاتا ہے۔ غیبی حقائق کے معاملے میں عقل، قیاس و گمان کرسکتی ہےلیکن قیاس وتخمین سے کبھی غیبی حقائق معلوم نہیں کیے جاسکتے ۔ حقائق جب سامنے آجائیں تو عقل ان کو پرکھ سکتی ہے اور سچے اور جھوٹے نبی کا فرق بھی معلوم کرسکتی ہے ۔ عقل، اللہ کے کلام اور انسانی کلام میں فرق کو بھی معلوم کرسکتی ہے۔اللہ کا آخری کلام اور علمِ وحی کا خالص خزانہ قرآن کی صورت میں اپنی اصلی حالت میں ہمارے ہاتھوں میں ہے جبکہ پچھلی کتابیں تحریف کا نشانہ بن چکی ہیں ۔قرآن ایک کتابِ محفوظ ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لے رکھی ہے۔

آج دنیا میں الحاد یعنی خداکے انکار کی روش تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہاں تک کہ مسلمانوں میں بھی یہ مرض تیزی سے بڑھتا جارہا ہے ۔ قرآن میں الحاد کے مقابلے میں اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر کثرت سے دلائل دیے گئے ہیں ۔ان دلائل کو پرزور طریقے سے لیکن فہمائش اور عمدہ نصیحت کے اندازمیں تکرارکے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔آفاق و انفس سے ایسے دلائل پڑھ کر بے اختیار دل پکار اٹھتا ہےکہ کائنات کا ایک عظیم خالق ہے جو مدبرہے،منتظم ہے ،پالنہار ہے اور قادرِمطلق ہے۔منکرین خداسے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

﴿َٔمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ۝ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ ۔﴾( الطور۳۵، ۳۶)

کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔

ان آیات میں فرمایا جارہا ہے کہ کوئی بھی چیز عدم سے وجود میں نہیں آسکتی اس لیے کہ آج تک اس کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے کہ خودبخود عدم سے بغیر کسی سبب کے کوئی چیز وجودمیں آجائے۔ کوئی نہ کوئی ہستی ضرورہونی چاہیے جس نے اس حیرت انگیز کائنات کو پیداکیا ہے
(وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۔وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا ۔۔سورۃ الروم ۲۷)۔
اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ کیا انسان خالق کے بغیر خود ہی پیدا ہوگئے ہیں؟جب دنیا میں کوئی معمولی سی مشین خودبخود وجود میں نہیں آسکتی ہے تو انسان جیسی پیچیدہ مخلوق کیسے وجود میں آسکتی ہے؟انسان اربوں خلیات کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک روحانی وجود کے ساتھ شعور،ادراک واستدلال کی قوتیں بھی رکھتا ہے۔دوسرا سوال اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ کیا انسان نے خود انسان کی تخلیق کی ہے؟ انسان سے بڑھ کرعقلمند مخلوق کائنات میں ابھی تک انسان کے علم میں نہیں آئی ہے۔لیکن کیا دنیا میں اب تک کسی انسان نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ایک انسان نے انسان کی تخلیق کی ہے؟ نہیں ۔ لہٰذا ان دوسوالوں کا جواب نفی میں ہوگاکہ نہ انسان خودبخود پیداہوا ہے اور نہ ہی انسان نے انسان کی تخلیق کی ہے۔

﴿نَحْنُ خَلَقْنَاكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ ۝ أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ ۝ أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ ﴾( الواقعہ ۵۷ تا ۵۹)

ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں؟

﴿أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ۝ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ ﴾( الواقعہ ۶۳ ، ۶۴)

کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم بوتے ہو ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا اُن کے اُگانے والے ہم ہیں؟

﴿أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاء الَّذِي تَشْرَبُونَ ۝ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ ﴾(الواقعہ ۶۸ تا ۶۹)

کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو اِسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اِس کے برسانے والے ہم ہیں؟ ﴿أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ ۝ أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِؤُونَ ﴾

کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو اِس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ سورۃ الواقعہ ۷۱ ، ۷۲۔
سورۃ الواقعہ کی مندرجہ بالاآیات میں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل کو اپیل کرنے والے ایسے سوالات کیے ہیں جن کے کوئی جوابات انسان کے پاس اس کے سوا نہیں ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جس نے نہ صرف انسانوں کی تخلیق کی ہے بلکہ اس کرۂ ارض پر انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے نباتات کو پیدا فرمایا ،پانی کو برسایا اور آگ بھی پیدا کی جس کے بغیر انسانی زندگی محال تھی ۔وہی خالق ہے جس نے انسان کو ان احتیاجات کے ساتھ پیداکیا گیا جن کی تکمیل کے بغیر اس کی زندگی اس کرۂ ارض پر ممکن نہیں ہے۔پھر ایک ایک ضرورت کا انتہائی باریکی سے انتظام بھی فرمایا۔احتیاجات اور ان کی تکمیل کے مابین جو مناسبت ہے، کیا ایک ربِ کریم خالق کی طرف رہنمائی نہیں کرتی ہے؟

َأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۔۔ اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔( الحدید۲۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی دھات کا ذکر فرمایا ہے جو انسانوں کی ترقی و تمدن میں بہت اہم رول ادا کرتا رہا ہے۔آج بڑی بڑی مشینیں جن کے ذریعے انسان نے بے انتہا ترقی کی ہے اس میں لوہا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔بالخصوص فلک بوس عمارتوں میں لوہے کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے جس کی بدولت یہ عمارتیں تیزو تند ہواؤں اور زلزلوں کے مقابلے میں اپنی جگہ پر کھڑی ہوئی ہیں۔ اللہ کو معلوم ہے کہ کتنی مقدار میں قیامت تک کے انسانوں کی ضروریات کے لیے لوہے کی ضرورت ہے اور اسی کے بقدر اللہ تعالیٰ نے لوہے کو اتاراہے۔لوہا ایک ایسی بھاری اور طاقتوردھات ہے جس کے بارے میں سائنس داں یہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری کہکشاں سے باہر بہت بڑے نیوکلیر دھماکوں کے نتیجے میں تیار کی گئی دھات ہے اور شہابیوں Meteors کی بارش کی صورت میں زمین پر اس کو برسایا گیا ہے جو زمین میں پیوست ہوگئی تھی ۔آج اسی سے انسانی ترقی کے ساتھ تمدن کی اعلیٰ ضروریات کی تکمیل ہورہی ہے۔ ضروریات اور ان کی تکمیل میں جو مناسبت ہے وہ ایک عظیم خالق، رازق اور رب کے وجود پر دلالت کررہی ہے جو رحیم ،قدیر اور حکیم بھی ہے ۔دنیا میں جتنی بھی دھاتیں زیرِ زمین ہیں ان کو ایک خاص مقدار میں رکھا گیا ہے جو انسان کی ہر زمانے میں اس کی ضروریات کی تکمیل کررہی ہیں۔
﴿قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاء مَّعِينٍ﴾ ۔(الملک ۳۰)

اِن سےکہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنوؤں کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون ہے جو اِس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادے گا؟ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر زیرِ زمین پانی کے ذخیرہ کو اللہ تعالیٰ زمین کی ایسی گہرائیوں میں اتاردے جہاں تک آسانی سے تمہاری رسائی نہ ہو سکے تو کون تمہارے لیے پانی کی ضرورت کو پوراکرے گا۔ہوا کے بعدپانی حیاتیاتی زندگی کے لیے بہت اہم ہے ۔اگر اللہ آسمان سے بارش نہ برسائے اور زیرِ زمین پانی کے ذخائرکو بھی خشک کردے تو انسان اور حیوانات قحط سے مرجائیں گے۔اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ارشاد فرمایا کہ
﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ ۔﴾(سورۃ المومنون ۱۸)

اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا، ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔

سطح سمندر سے کروڑوں ٹن پانی بخارات کی شکل میں اڑ کر ہواؤوں کی ذریعے دور دراز مقامات پر بادلوں کی شکل میں منتقل ہوتا ہے اور بارش کی شکل میں خاص مقدار میں برستا ہے ۔کہیں رحمت بن کر اور کہیں زحمت کی شکل میں ۔یہی پانی زمین کے نیچے ذخیرہ کردیا جاتا ہے اور زمین کے نیچے بھی ایسی نہروں کو جاری کردیا گیا ہے جن سے ہر موسم میں کھیتوں ، انسانوں اور مویشیوں کو سیراب کیا جاتا ہے ۔ایسے خالق کا انکار کرکے کیا لوگ بے خوف ہوگئے ہیں کہ وہ چاہے تو زیرِ زمین آبی ذخائر کو غائب کردے ۔

﴿هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ۝ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ۝ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ ﴾(الملک ۱۵ تا ۱۷)

وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے ، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاوخدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔ کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جَھکولے کھانے لگے؟ کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراو کرنے والی ہوا بھیج دے؟ پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے۔ 
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ زمین کو کس طرح انسانی و حیوانی زندگی کے لیے ممکن بنایا گیا ہے ۔زمین دوہری گردش کررہی ہے ،ایک اپنے محور پر اور دوسرے سورج کے اطراف اپنے مدارمیں ۔لیکن یہ ایسی ساکن محسوس ہوتی ہےکہ جیسےکہ یہ جامد ہے ۔اس کی حرکت کو پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ کر ایسا منضبط کیا گیا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ۱۶۰۰کلومیڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محورپر اور ایک لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے مدارمیں سورج کے اطراف چکر لگارہی ہے۔اتنی تیز رفتاری کے ساتھ زمین محوسفر ہےاور اس کی حرکت کا ہم کو اندازہ ہی نہیں ہوتا اس لیے کہ زمین اپنے اطراف ہوائی غلاف Atmosphere کے ساتھ حرکت میں ہے۔ ہم پر اوپر سے ہواکا دباؤہے اور نیچے سے زمین کی کششِ ثقل ہے ۔مزید پہاڑوں کے ذریعے زمین کو ایسا متوازن رکھا گیا ہے کہ زمین کی حرکت محسوس نہیں ہوتی ۔پہاڑوں کے اس رول کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے:
﴿وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ﴾۔( الانبیاء۳۱)

 

اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ اِنہیں لے کر ڈھلک نہ جائے، اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔

زمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور رحمت سے ایسا تابع کردیا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے جائے قرار بنادی گئی ہے۔اس میں قدرتی راستے بنا دیے گئے ہیں ۔ انسان نئی ٹکنالوجی کی مدد سےمزید نئے نئے راستے اس میں اپنے لیے ہموارکرتا رہا ہے۔اس زمین کی مخلوقات کو آسمان سے آنے والی خطرناک شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے انتظامات فرمائے ہیں جس میں ایک ہے Ozone Layerجس کی بدولت زمین کی مخلوق کوUltraviolet rays, Radiationاور Global warmingسے محفوظ رکھا گیا ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:وَجَعَلْنَا السَّمَاءسَقْفًا مَّحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ ۔اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔(الانبیاء۳۲)۔کیایہ نشانی کافی نہیں ہے ایک ارحم الراحمین ہستی نے اپنی قدرت اور رحمت سے زمین کی مخلوق کی حفاظت کے لیے اتنے عظیم الشان انتظامات فرمائے ہیں۔

زمین میں حرارت اور روشنی کا انتظام اس طرح فرمایا گیا ہے کہ ایک شمسی نظام قائم کرکے سورج کو حرارت ،توانائی اور روشنی کا ذریعہ بنایا گیا ۔ زمین کو اپنے محور پر گردش کا پابند بنا کر رات اور دن کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ زندہ مخلوقات رات میں سکون حاصل کرسکے۔ قرآن میں فرمایا گیا :وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ۔اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تَیر رہے ہیں۔(الانبیاء۳۳)

مزید یہ کہ اس زمین میں ایسی رویدگی رکھ دی گئی ہے کہ اس کی زرخیزی سےاربوں انسان اور چرند اور پرند اپنا رزق حاصل کررہے ہیں۔اسی زمین سے سبزہ ،ترکاری اور پھل اگتے ہیں ۔اسی سبزہ کو کھاکر مویشی جانور، انسانوں کے لیے گوشت اور دودھ فراہم کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

﴿ وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ۝ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ ﴾ (المومنون ۲۱، ۲۲)

 

اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں ۔ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو۔ان تمام قرآنی آیات میں اس نکتہ پر استدلال کیا گیا ہے کہ اس کائنات میں اور بالخصوص کرہ ارض پر بے شمار مخلوقات کی پیدائش اور ان کے لیے رزق رسانی کے انتظامات اور ان کی مسلسل نسلی افزائش کاسامان ایک حکیم ،قدیر اور مدبر ہستی کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔اس کائنات میں ایسی fine tuning کی گئی ہے کہ ایک بڑے عریض خلا ء میں ستارے اور سیارے اپنے اپنے مداروں میں حالتِ حرکت میں ہیں۔ ان کو حرکت دینے والا اور ان کو حالتِ حرکت میں رکھنے والی ضرور ایک ہستی ہے جو ایک سیکنڈ کے لیے بھی اپنی اس تخلیق سے غافل ہوجائے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ وہ ہستی جس کو نہ نیند آتی اور نہ اونگھ(سورۃ البقرۃ ۲۵۵)۔ بس کا ڈرئیور اگر چند سیکنڈ کے لیے نیندکی آغوش میں چلا جائے تو بس کا کیا حشر ہوگاہم جانتے ہیں جبکہ اس کائنات میں بعض ستارے کروڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کررہے ہیں ۔ہمارا پورا نظام شمسی بھی اپنے مدارمیں ۸لاکھ اٹھائیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتارسے محوسفر ہے۔

اللہ کے وجود پر قرآن میں دلائل کی فہرست طویل ہے جس کا احاطہ اس مضمون میں نہیں کیا جاسکتا ۔ان دلائل کو پیش کرتے ہوئے قرآن سوال کرتا ہے:

﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾( العنکبوت ۶۱)

اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نےمسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟

﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾

( العنکبوت ۶۳)

اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سےمردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اُٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔ کہو، الحمدللہ، مگر اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ 

ان سوالات کے جوابات اس کے سوا نہیں ہیں کہ عقل مند انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔اور آسمان سے وہی پانی برساتا ہے اور مردہ زمین کو وہی زندگی بخشتا ہے۔یہ انسان کی عقل کا امتحان ہے کہ وہ اللہ کی قدرت کی ان گنت نشانیوں کو دیکھ کر اور اس کے بے شمار احسانات سے فائدہ اٹھاکر اپنے منعم حقیقی کو پہچانتا ہے یا نہیں۔دوسرا امتحان انسان کا یہ ہے کہ کیا وہ اپنے رب کو واحد الٰہ (معبود) ماننے کے لیے تیار ہے؟کیا اللہ کی ربوبیت اسی کے لیے الوہیت کا تقاضا نہیں کرتی؟