غزل
جب سج دھج کر وہ شاہِ حسن سوئے عاشقاں نکلے
پیروں سے زمیں نکلی، سروں سے آسماں نکلے
یہ دامن تو تھام لیا نہ رکھا مجھے تنہا
جب سج دھج کر وہ شاہِ حسن سوئے عاشقاں نکلے
پیروں سے زمیں نکلی، سروں سے آسماں نکلے
یہ دامن تو تھام لیا نہ رکھا مجھے تنہا
اک اور رات جاگ لی ، اک اور دن نکل گیا
کبھی گرا کبھی اٹھا ، میں گر کے پھر سنبھل گیا
اسی کے کوزہ گر کے دستخط تھے اور وفا کا عہد
میں حیرتوں میں گِھر گیا وہ شخص جب بدل گیا
وگرنہ جذبے برف ہوتے دیر کتنی لگنی تھی
خدا کا شکر لمحہِ وصال پھر سے ٹل گیا