سُستی ایک مہلک مرض
اللہ رب العزت نے انسانوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔البتہ اس کی فطرت میں ایسی خامیاں بھی رکھی ہیں جن پر توجہ نہ دی جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو انسان اپنے مقام انسانیت سے نیچے گرکر جانوروں کے زمر ے میں آجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ انسان کو ضعیف اور کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔اس طبعی ضعف اور کمزوری کی وجہ سے وہ جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ روحانی یا باطنی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی ایک بیماری سُستی و کاہلی ہے۔تعجب کی بات ہے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر اس مرض مہلک کا شکار ہے۔سُستی و کاہلی ایک ایسی وبا ہے جس نے قوموں کو تباہی و بربادی سے دوچار کیا ہے۔آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غیر مسلم اقوام تو اپنی محنت،جدوجہداور کوششوں سے مریخ پر کمندیں ڈالنے کی تدابیر کررہی ہیں لیکن امت مسلمہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے دنیا کے تمام ممالک کا سروے کرکے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں سُستی کے حوالے سے تمام ممالک کی درجہ بندی کی گئی۔ اس میں سرفہرست اسلام کے مرکز یعنی سعودی عرب کو رکھا گیا ہے۔ سُستی و کاہلی کے سبب بلڈ پریشر،شوگراور موٹاپے جیسے خطرناک قسم کے امراض سعودی معاشرے میں عام ہوگئے ہیں۔
سُستی کے سبب جہاں انسان عبادات چھوڑ کر آخرت کی دائمی نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے وہیں دنیوی اعتبار سے بھی اس کے نقصانات کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔سُست انسان نہ اپنا کوئی کام کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کے کسی کام آسکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں منافقین کی اس بات پر مذمت فرمائی ہے کہ نماز ان کے لیے ایک بوجھ تھی اور وہ اس میں سُستی و کاہلی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ زکوٰ ۃ کی ادائیگی میں بھی ان کا یہی حال تھا کہ وہ بادل نا خواستہ مجبوراً زکوٰۃ ادا کیا کرتے تھے۔نماز اور زکوٰۃ جیسی اہم ترین عبادات میں سُستی کا مظاہرہ کرنا سُستی کی بدترین اقسام میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’۔۔۔نماز کے لئے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں ‘‘ (سورۃ التوبہ: 54)۔پیارے نبیﷺ کثرت سے سُستی و کاہلی سے پناہ مانگتے اور دعا کیا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ،میں زیادہ بوڑھے ہونے سے،غمگین ہونے سے،عاجزی سے،سُستی سے،بخل سے،بزدلی سے،قرض تلے دبنے سے،لوگوں کے غضب سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘(بخاری)۔ رسول خدا کی ایک اور دعا جو بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہ کے حوالے سے نقل کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اے اللہ، میں سُستی سے،زیادہ بڑھاپے سے،گناہ میں مبتلا ہونے سے اور قرض دار ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘سُستی کے ایک خطرناک بیماری ہونے کی سب سے بڑی اور قطعی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ خود بھی اس سے پناہ مانگتے اور صحابہ کو بھی اس مہلک بیماری سے پناہ مانگنے کی ترغیب دیتے تھے۔
نیکی کے کاموں میں سبقت کی تلقین
اللہ تعالیٰ نے سُستی و کاہلی کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے۔وہ اس طرح کہ قرآن کریم میں نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان مومنین کی تعریف کی گئی ہے جو نیکی کے کاموں میں آگے بڑھتے ہیں اور دوسروں کو پیچھے چھوڑدیتے ہیں۔ظاہر بات ہے کہ آگے وہی بڑھ سکتا ہے جو سُست و کاہل نہ ہو۔کاہل انسان کسی سے مقابلہ کرکے اسے پیچھے نہیں چھوڑ سکتا۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور جنت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھلاؤجس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سماجائیں اور پرہیز گاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔‘‘
سُستی و کاہلی کے نقصانات
سُستی کی بیماری کسی خاص گروہ یا جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس لیے جب یہ کسی قوم میں پھیلتی ہے تو کسی خاص عمر کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی بلکہ ہر عمر اور ہر قسم کے افراد (خواہ علماء ہوں یا طلبہ ،عبادت گزار عوام ہوں یا شیوخ نوجوان،مرد ہوں یا خواتین ،امیر ہوں یا غریب،تندرست ہوں یا بیمار،پرہیز گار ہوںیا فاسق ) غرض تمام قسم کے افراد اس وبا میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ البتہ اس وبا میں مبتلا ہونے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔یہ کسی کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے اور کوئی اس سے کم متاثر ہوتا ہے۔اورہر کسی کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کی وجوہات بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔سُستی و کاہلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کسی کام کو ثابت قدمی سے انجام نہیں دے سکتا۔یہ بہت سی عبادات اور اعمال سے انحراف کا باعث بنتی ہے۔
انسان کا فطری ضعف
چوں کہ انسان ایک ضعیف مخلوق ہے اس لیے ہر انسان کو فطری طور پر سُستی لاحق ہوتی ہے۔لیکن اس کا مقابلہ کرنے میں انسانوں کی مختلف قسمیں ہیں۔بعض تو فوراً ہی اسے دور بھگانے کی فکر کرتے ہیں اور سُستی کی وجہ سے جو کمی و کوتاہی ہوئی ہے اس کی تلافی کا انتظام کرتے ہیں،جب کہ بعض لوگوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے وہ سُستی کا مقابلہ بھی سُستی سے کرتے ہیں،کمی کوتاہی کی تلافی بھی سُستی سے کرتے ہیں اور سُستی ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ سُستی کا نقصان اس وقت کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب انسان کو اس کا احساس نہ ہو،تب یہ مرض انسان کو باطنی طور پر اسی طرح موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے جس طرح جسمانی مرض انسان کے جسم کو۔کیوں کہ مرض سے لاعلمی کے باعث انسان اس کے علاج کی طرف توجہ نہیں دے پاتا اور یہ مرض اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کرتارہتا ہے۔اس طرح یہ مرض انسان کو روحانی طور پر ہلاک کردیتا ہے،جس کی وجہ سے وہ راہ راست سے ہٹ کر گمراہ ہوجاتا ہے۔
ایک موقع پر اللہ کے نبی ﷺنے ارشاد فرمایا:’’بلاشبہ تم میں سے ایک شخص کے اندر کا ایمان ایسے ہی پرانا اور بوسیدہ ہوجاتا ہے جس طرح کہ کپڑا بوسیدہ ہوجاتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہارے دلوں میں ایمان کی تجدید کرے۔‘‘ معلوم ہوا کہ ایمان کی تجدید ضروری ہے ورنہ بہت سی بیماریاں اس کی چمک کو گہن لگا دیں گی۔ان بیماریوں سے بچنے کے لیے ایمان کی تجدید نسخہ کیمیاء کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان بیماریوں میں سے ایک سُستی کاہلی بھی ہے۔ دین میں ہمیں یہ ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کی جائے کہ گویا ہم اسے دیکھ رہے ہوں۔ اس سے اللہ کا خوف اور اس کی خشیت دل پر طاری ہوتی ہے،اس کی عظمت دل و دماغ میں جاگزیں ہوتی ہے۔اس بات کا کامل ایمان ہو کہ وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہے اور میرے ہر عمل کا اپنے علم کامل سے احاطہ کیے ہوئے ہے۔دل میں اس کی محبت ہو اور اس سے عطاء و ثواب کی امید ہو۔دل میں اللہ تعالیٰ کا دھیان نہ ہوتو عبادات میں سُستی پیدا ہونے لگتی ہے۔جس طرح اخلاص کی کمی سُستی کا بڑا سبب ہے اسی طرح اخلاص پیدا کرنے کی محنت سُستی کو دور کرنے کا سب سے بڑ ا ذریعہ ہے۔ اس لیے مخلص اور متقی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ ایسا نور پیدا فرماتا ہے جس سے وہ سُستی اور اس جیسی بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے،’’اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کروگے تو وہ تمہیں حق و تمیز عطا کرے گا‘‘(سورۃ الانفال:29)۔دین کا علم ایک ایسا نور ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ انسان کے درجات کو بہت بلند کرتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے،’’ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجوں کو بلند کرے گا‘‘(سورۃ المجادلہ: 11)۔ایک حدیث میں نماز میں سُستی و کاہلی کا سبب عدم معرفت یعنی اجر و ثواب سے ناواقف ہونا بھی بتایا گیا ہے۔مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات کو پہچان لے،اپنی حقیقت کو سمجھ لے،اپنے مقصد زندگی پر غور کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ آیا میری روزمرہ کی مصروفیات اس مقصد کے موافق ہیں جس کے لیے میری تخلیق کی گئی ہے یا میں کسی اور ڈگر پر چل کر اپنا وقت ضائع کررہا ہوں۔اس محاسبہ سے اس کا سُستی و کاہلی سے بچنا آسان ہوجائے گا۔
سُستی کے اسباب اور اس کا علاج
بری عادتیں انسان کو اچھا کام کرنے سے روکتی ہیں۔ رات میں بلا مقصد تاخیر سے سونا،حد سے زیادہ موبائل کا استعمال،سگریٹ نوشی وغیرہ بری عادتوں میں جب انسان مبتلا ہوجائے تو وہ کسی انقلابی کام کو انجام نہیں دے پاتا۔جب انسان کے پاس زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہوتو وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ناکام ہونے لگتا ہے،چاہے وہ کالج لائف ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ۔خود اعتمادی کا نہ ہونا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے جیسے کسی کام کے تفویض کیے جانے پر اس بات کا اظہار کہ یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔اطراف کے مجموعی ماحول میں وقت کے ضیاع کا عمومی رویہ (چاہے وہ گھر ہو یامحلہ یا کالج) جہاں بے جا بحث و مباحثہ اور دیگر چیزوں میں وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ سُستی کے اور کئی اسباب ہیں۔
مسلم کی ایک حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا: محنت و مشقت،کسی بھی کام کو لگن سے کرنااور کسی بھی کام کو آگے بڑھ چڑھ کر کرنا مومنین کا شیوہ ہے۔‘‘ بری عادتوں کو ختم کرنا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم صالح دوستی کواختیار کریں۔بامقصد زندگی گزارنے والے کی صحبت اختیار کریں۔اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔ماضی میں اسلاف کے کارناموں سے واقفیت حاصل کریں کہ وہ کس طرح سخت محنت و مشقت کے عادی تھے۔‘‘’’زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو اور فرصت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جانو‘‘کی ترغیب بھی اس سلسلے میں کافی اہم ہے۔