اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت کی بات کریں تو نومولود بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے کی تاریخ عام ملتی ہے۔ اُس دور میں عورت کو پس پشت رکھنے کا قصور وار جاہل زمانے کو تصور کیا جاتا ہے مگر آج جب انسان چاند پر پہنچ چکا ہے اور ہر شعبے میں جدیدیت کا علم بلند کیے کھڑا ہے۔ خواتین کی فلاح و بہبود اور ان کے لیے بیش بہا مواقع کی فراہمی کے لیے مختلف ادارے کام کر رہے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کی کل آبادی کا ایک نمایاں حصہ بے روزگاری کا شکار ہے۔
امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے شاٸع ہونے والے جریدے پب میڈ سنٹرل PubMed Central میں درج کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد اندراج کے ساتھ میڈیکل کالجوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، پھر بھی بہت سی خواتین گریجویشن کے بعد اپنی خدمات سر انجام دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میڈیکل کونسل (پی ایم سی) کےمطابق ایم بی بی ایس گریجویٹ خواتین ڈاکٹروں میں سے 50 فیصد نے یا تو پریکٹس نہیں کی یا مختصر عرصے میں ہی ملازمت چھوڑ دی¹. پاکستان میں خواتین کا اہلیت اور قابلیت رکھنے کے باوجود
یوں گھروں کی زینت بن کر بیٹھ جانا مجموعی طور پر کل آبادی میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے کا باعث ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح² کے مطابق:
عورت دنیا میں ایک انتہائی اہم مقام رکھتی ہے۔
اس کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے قدرت نے اسے
بہت زیادہ ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ اگر آپ ان
میں ناکام ہو گئے تو آپ نہ صرف اپنی ذات کو
نقصان پہنچائیں گے بلکہ آپ کی اجتماعی زندگی
کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ³ کے جریدے میں شاٸع ہونے والی ریسرچ کے مطابق پاکستان بھر میں ڈاکٹری کے شعبے سے منسلک 59 بے روزگار خواتین کے انٹرویو منعقد کراٸے گٸے اور نتاٸج نے واضح کیا کہ
● سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں، خاندانی پابندیوں اور ملازمت کی جگہ پر پیش آنے والی مختلف دشواریوں جیسی وجوہات کے باعث خواتین ڈاکٹرز اپنی خدمات
سرانجام دینے سے قاصر ہیں۔
● مروجہ پدرانہ سماجی نظام میں کام کرنے والی خواتین کے خلاف دقیانوسی تصورات رکھے جاتے ہیں۔
● کم عمری کی شادیاں بھی ایک اہم وجہ ثابت ہوٸی ہیں۔
● اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ مروجہ معاشرتی نظام سسرال اور شوہر کے اثر و رسوخ کو برقرار رکھتا ہے اور خواتین کی ملازمت کو معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید تنازعات دیکھنے میں آٸے ہیں۔
● مزید برآں ہسپتالوں اور دفتروں میں کام کرنے والی خواتین مختلف مساٸل سے دوچار ہیں،
ان تمام عوامل نے مل کر ہمارے معاشرے کی خواتین کو ایک طرز کا روبوٹ بنا دیا ہے جن کو چلانے کے لیے دوستوں، خاندان اور رشتہ داروں کی نام نہاد گپ شپ ایندھن کا کام کرتی ہے ۔ ان کی پروگرامنگ کے عمل کی بنیاد خالصتاً جذباتی ہے اور ان میں فیصلہ کن طاقت کے لیے کوٸی سافٹ وٸیر انسٹال نہیں ہے۔ گھبراٸیے مت۔ آئیے اسے آسان الفاظ میں سمجھتے ہیں۔ طنز، تنقید اور لوگوں کی بے بنیاد رائے سے بھرے ماحول میں رہنا ذاتی ترقی اور نشوونما کی راہ میں روز اول سے روڑے اٹکاتا آیا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں ایک ایسی مخلوق ملتی ہے جو باہر کی دنیا سے بے حد خوف زدہ رہتی ہے۔ یہی خوف دنیا کو ایک نیا کاروبار فراہم کرتا ہے اور دنیا کی 50 فی صد سے زاٸد صنعتیں انہی روبوٹس کے خوف پر مبنی ہیں جنہیں اکثر ماں، بہن اور بیٹی کہا جاتا ہے۔ معذرت کے ساتھ جناب میں یہ کہنے میں کوٸی عار محسوس نہیں کروں گی کہ اسی طرح یہ معاشرہ چلتا ہے۔
اقوام متحدہ کے زیر اثر خواتین کی فلاح و بہود کے لیے کام کرنے والے شعبے کی ناظم امور سیما نےفرمایا
تھا کہ
جب ہم خواتین کی دلیری اور برے حالات سے
مقابلہ کرنے کی ہمت کو پروان چڑھاتے اور اس
میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو ہم مستقبل کے
ساتھ ساتھ آج کے اثاثوں کا دفاع بھی کر رہے
ہوتے ہیں۔ مشکل حالات سے مقابلہ کرنا اور
بااختیار ہونا دو ایسی اہم خصوصیات ہیں
جو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔
حوالہ جات
1.https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC10553294/#:~:text=Pakistan%20Medical%20Council%20(PMC)%20states,doctors'%20shortage%20in%20the%20country.
2. National Report on the status of women
in Pakistan, 2023 - A report by UN Women
3. Unveiling the obstacles encountered by women doctors in the Pakistani healthcare system: A qualitative investigation
https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/