سیڑھیاں اتر کر دائیں جانب ہی ہماری مکروپروسیسر کی لیب تھی ، میں اور میری دو اور ساتھی جنہوں نے سیمسٹر کے آغاز سے ہی یہ تہیہ کیا ہوا تھا کہ اس بار سیمسٹر کے اختتام پر ہونے والے پروجیکٹس میں ہم خود محنت کریں گے اورہر بار کی طرح کسی صنفِ مخالف کے گروپ کا سہارا لے کر نمبروں پر سانپ نہیں بنیں گے ۔پکا پکایا کھانا تو مل ہی جاتا ہے مگر ساتھ میں ڈھکے چھپے انداز میں کام نہ کرنے کے طعنوں کا سلاد بھی لینا پڑتا ہے ۔ بحرحال ایک پروجیکٹ کی رپورٹ پروپوزل اور ہارڈ وئیر سے ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ایک دو طعنے جائز ہوتے تھے۔
اب ہم چار ہزار روپے لگا کر اس گاڑی نما پروجیکٹ کی صورت کو بھی انتہائی ترس کھانے کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اور کسی ایک بھی بتی کے جل جانے کے منتظر تھے مگر ہم اپنی اس امید پر مایوس ہی رہے ۔۔لیب کے خالی ہونے کے انتظار میں ہم لیب کے باہر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ۔یہ گھنٹوں کے باریک ٹانکے اور اس پر لگا وقت اور پیسہ اتنا بیکار معلوم ہو رہا تھا کہ گویا لیب خالی ہو اور اس کا برائے نامviva دے کر اس سے جان چھڑوائی جائی۔ ساتھ کھڑی محترماؤں کو تو اس نام نہاد روبورٹ کار کو پکڑنا تک بھی گوارہ نہ تھا ۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی ،لیب سے کچھ طلبہ وطالبات اپنی نیم مدہوش شکلیں لے کر باہر نکلے تو ہم تینوں نے رپورٹ اور پروجیکٹ اٹھائی اور لیب میں موجود ایک پرانا کمرہ جس میں ایک کرسی اور کرسی کے سامنے میزجبکہ کرسی کےپیچھے موجود ساری جگہ ٹوٹے پھوٹے پلاسٹک اور کچھ بورڈز پر الیکٹرانوکس کی چیزوں سے ڈیزائن بنے پڑے ہوئے کسی کباڑخانہ کاسا نظارہ ہی دے رہے تھے مگراس بد حال کمرے کو لیب انسٹکٹر کے آفس کا نام دیا گیا تھا ۔ خیر آفس میں داخل ہو کر میم کا پہلا سوال یہی تھا کہ یہ چل کیوں نہیں رہا ؟ایک ساتھ نے بلا کسی تاخیر کے فورا جواب دیا کہ: :
"کیوں کہ یہ ہم نے خود بنایا ہے "
تو ثابت ہوا کہ انجینرنگ کی طالبات کو بھی یہ اندازہ بخوبی ہے کہ جو پروجیکٹ ہم نے خود بنانا ہے وہ کس حد تک چلنا ہے ۔یہاں ایک بات واضح رھے کہ بولنے والی ساتھی کا جی پی اے تین اشاریہ چھے کے قریب تھا ۔تو اس سے ایک لائق انجینر طالبہ کی رٹہ مار صلاحیت صاف ظاہر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خواتین کا تناسب انجینرنگ کے شعبہ میں کافی کم ہے اور اگر ہے تو وہ انجینرنگ یا تو ایف ایس سی کی پری انجینرنگ تک محدود یا اگر اچھی انجینرنگ یونیورسٹی میں سیٹ مل جائے تو یہاں آ کر ہر سیمسٹر میں ایک آدھ ایف کی عادی طالبہ بھی خود کو انجنیئر کہہ کر مطمئن کرنے کی حد تک یا اگر اکا دکا رٹا مار تیز طرار طالبات اچھے رزلٹ لے بھی آئیں تو انھیں ٹیکنالوجی کے عملی میدان میں کپسٹر(capacitor) اور انڈکٹر(inductor) کے فرق کا بھی سو فیصد اندازہ نہیں ہوتا ۔
طالبات اور ان کے شیخ چلی کے سے خیالی پلاؤ:
جس کی ایک یہ وجہ بھی ہےکہ پیکرِ نزاکت خود کو کبھی فیشن کے حصار سے نکال کر محض انجینرنگ پر دھیان کرنے کے لیے کوشاں نہیں ہوئیں یا شاید وہ اس پر قادر ہی نہیں کہ وہ میدانِ فیشن کو پس پشت ڈال کر سو فیصد توجہ کسی بلڈنگ کے بننے ،یا کسی سرکٹ کے چلنے یا کوئی سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنے میں لگا سکیں ۔
ہر سائنس کے میدان میں قدم رکھنے والی اپنا مستقبل نرگس ماولوالا ( ایک پاکستانی امریکی خاتون سائنس دان)، تسنیم حسین زہرہ(ڈاکٹریٹ حاصل کرنے والی چند پاکستانی خواتین میں سے ایک ہیں اور سٹرنگ تھیورسٹ کی پہلی پاکستانی خاتون)یا مشہور پاکستانی انجنیئرز یاسمین لاری یا رملہ قریشی سا تو تصور کرتی ہے مگر ایک سرکٹ کو بناتے ہوئے کسی رزسٹر (resistor)کی ٹانگ بھی زور کی انگلی پر لگ جائے تو کہرام مچا دیتی ہے دوران سولڈرنگ اگر انگلی پر ذرا برابر لگ جائے تو قیامت آ جاتی ہے ۔میں نزاکت کو نسوانیت کا حسن سمجھتی ہوں مگر مخلوط ادارے میں انجینرنگ كی طالبات کی بے جا اور بناوٹی نزاکت سے مجھے شدید کوفت ہوتی ہے ۔ کسی رش میں انتہائی سستی اور لاپرواہی سے چلنے والی محترمہ خود کو نزاکت یا پھر مصروفيت کے اعلی مرتبے پر فائز سمجھتیں ہیں ۔ جس بناوٹی نزاکت کا مظاہرہ یہ ایک کرسی اٹھانے میں کرتیں ہیں ،کھانے پینے میں دیکھاتیں ہیں یا کبھی کسی سسٹم کا پاور بٹن آن کرنے میں دکھاتیں ہیں کہ بحثیت لڑکی اس بے جا کی نزاکت سے میں بھی اکتا جاتی ہوں مگر انہی محترماؤں کو شادی کے ہوٹل میں کھانا کھلتے وقت دیکھیں یا کیفے میں کبھی پیٹ پوجا کرتے دیکھ لیں توان پیکر نزاکت کے دوسرے روپ کو ماننا یقینا نا قابل یقین ہو گا۔
انجینرنگ کی طالبات کا ادب سے تعلق:
تقریبا دو سال میں مجھے یہ اندازہ تو ہو گیا ہے کہ انجینرنگ یونیورسٹی کی طالبات انتہائی بے ذوق ہیں اور بہت زیادہ ادب سے دور ہیں ۔ان کا سارا ادب نمرہ احمد کے ناول سے شروع ہو کر علی زریون یا اسی طرح کے وہ شاعر جونوجوانوں میں اور کچھ نہیں تو محبت کا جذبہ ابھارنے یا غمگین شاعری کے حصار میں اداس رہنا ضرور سکھا دیتے ہیں ان کو سننے پر ختم ہو جاتا ہے ۔
حال ہی میں یونیورسٹی کےایک مشاعرہ میں مشہور نوجوان شاعر "تہذیب حافی" کو یونیورسٹی میں بڑی رقم دے کر مدعو کیا گیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ انجینرنگ یونیورسٹی کی وہ طالبات جن کی شاید ہر سیمسٹر میں چھے میں سےچار کورسز میں حاضری کم ہونے کے سبب امتحان کی اجازت نہ ہوتی تھی وہ صف اول پر بیٹھ کر "حافی حافی " کے نعرے لگا رہیں تھیں اور اس سب کو بعد از پروگرام ادب سے محبت کا نام دیا گیا ۔اور اگر انہی ادب پسند طالبات سے اپنے "قومی شاعر علامہ محمد اقبال "کے کلام کا سوال کیا جائے تو یقینا دو اشعار کے بعد ذہن خالی ملیں گے ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے پر یہاں اس کا ذکر محض آج کی انجنیئر طالبات کے ذوق کا اندازے کے لیے ضروری تھا۔
یہی وجہ ہے کہ انجینرنگ کی طالبات کا زخیرہ الفاظ بھی بہت محدود ہے جس کا اندازہ آپ اس سے بھی کر سکتے ہیں کہ یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں میں پڑھائی کے شوق ذرا عروج پر تھے اسی نسبت سے رجسٹرز کی زیب و زینت پر بھی ذرا زیادہ توجہ تھی۔ تو ایک ہم جماعت محترمہ نے رجسٹر کھولا سامنے "جامعہ ہندسیہ و تکنیکیہ " دیکھ کر مجھے سوال کرنے لگیں کہ آپ نے کسی جامعہ میں بھی داخلہ لیا ہوا ہے ۔ لفظ جامعہ کے مطلب شاید مدرسہ کی تعلیم تک محدود سمجھنی والی ان محترمہ کو جب بتایا کہ جس یونیورسٹی میں آپ بیٹھی ہیں اس کانام"university of engineering and technology " ہے اور یہ فقط اسی کا اردو ترجمہ ہے ۔ شرمنده کرنا پہلے ااچھا نہیں لگ رہا تھا مگر شرمنده ہونا بلاشبہ مجھے بھایا تھا ۔
انجینر طالبات اور ان کی رنگین مزاجی:
ویسے طالبات اگر انجنئیرنگ کے شعبہ سے نہ ہوں تب بھی وہ اپنی ذات میں انجنیئر ہی ہوتی ہیں۔ بھلے وہ "باتیں" بنانے کی انجنیئر ہی کیوں نہ ہوں۔ ارے نہیں نہیں!!! صرف باتیں بنانے میں نہیں، طالبات تو تقریباً ہر میدان میں انجنئیرنگ کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں۔ انجنئیرنگ کی طالبات کو کلاس میں کسی عمارت کا structure تیار کرنے کے بعد شام کو کسی فیملی فنکشن میں دیکھ لیا جائے تو عقل ماننے سے انکار کر دے گی کہ یہ وہی کلاس والی محترمہ ہیں۔ لیکن عقل فوراً ہار مان لے گی جب ان محترمہ کے ہاتھ پر مہندی ڈیزائن کے نام پر برج خلیفہ شکل کا نقشہ دیکھنے کو ملے گا۔ جی ہاں یہ انجنئیرنگ کی طالبہ ہی ہو سکتی ہیں۔ اور لیجئیے یہ انجنئیرنگ کی ایک اور طالبہ ہیں۔ کلاس میں اونگھتی، جمائیوں پر جمائیاں لیتی انجنئیرنگ کی e سے بھی ناواقف لگتی ہیں لیکن شام کو بازو چڑھائے کچن میں میکرونیز بنانے ایسے داخل ہو رہی ہیں گویا کشتئ نوح بنانے جا رہی ہوں۔ ان کی انجنئیرنگ کلاس میں نہ سہی، کچن میں تو چل ہی جائے گی۔ اور یوں طالبات اور انجنئیرنگ کی لازوال دوستی کلاس سے ہوتے ہوئے کچن تک جا پہنچتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو خوابگاہ تک جا پہنچتی ہے کیونکہ کچھ طالبات اپنے خوابوں میں حقیقت سے بڑے اور لمبے چوڑے قلعے تعمیر کرتے کرتے سو جاتی ہیں اور حقیقت بر خلاف ان کو نیند میں ہی فتح بھی کر لیتی ہیں۔
طالباات کی انجنئیرنگ محض تعارف تک:
انجنئیرنگ کی طالبات میں ایک اور اہم خصوصیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اپنی انجنئیرنگ کے شعبہ میں کچھ کام کریں یا نہ کریں لیکن "انجنئیرنگ" کی طالبہ ہونے کی بناء پر باقی کاموں سے خوب جان چھڑانا جانتی ہیں۔ اگر گھر میں چھوٹے بھائی کی طرف سے ایک گلاس پانی پلانے کا مطالبہ آ جائے تو پانی پلاتے ہوئے یہ گلاس اور اس کے اندر موجود پانی کو اس قدر غور سے دیکھیں گی گویا ابھی اس کے اندر غرقاب ہو جائیں گی۔ پانی پلاتے ہوئے یہ ضرور باور کرائیں گی کہ "میں انجنئیرنگ کی طالبہ ہوں"۔ اگر سم بند کروانے کے لئیے zong company میں کال کریں گی تو تعارف میں ضرور کہیں گی "میں انجنئیرنگ کی طالبہ ہوں"۔ لیکن جب انہی محترمہ سے ٹیچر کلاس میں انجنئیرنگ کا basic formula اپلائی کرنے کو کہیں گی تو یہ آنکھیں گھماتے ہوئے خود سے سوال کریں گی "میں انجنئیرنگ کی طالبہ ہوں؟" گویا ان طالبات کی ساری انجنئیرنگ کلاس سے شروع ہو کر کلاس میں ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ادھر ادھر تو صرف تعارف ہوتا ہے۔
پھر ان ہی طالبات میں سے کچھ کا کہنا ہوتا ہے "ہم کیوں نہیں کر سکتے ؟ہم لڑکوں سے کم ہیں کیا ؟"
اس سوال کا جواب میرا دو سال کا انجینرنگ کے ماحول میں تجربہ یہی کہتا ہے کہ اگر آپ کر سكتیں ہیں تو کریں نا ۔ میں ہر گز بھی اس نظریہ کی قائل نہیں کہ مرد اور عورت ہر معاملے میں برابر ہیں عورت فطری طور پر جسمانی طاقت میں مرد سے کم ہے اور نزاکت عورت کی فطری خصوصیت ہے دونوں صنف کی اپنے حقوق ہیں اپنے فرائض ہیں اور اس حساب سے اپنے اپنے کردار ہیں کوئی عورت چاہ کر بھی کسی مرد کا کردار ادا نہیں کر سكتی اور نہ ہی کوئی مرد کسی عورت کا کردار ادا کر سکتا ہے کیوں کہ یہ عمل ،یہ سوچ فطرت کے مخالف ہے ۔ لیکن ذہانت میں دونوں صنف برابر ہیں سو بے جا نزاکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو کم تر نہ سمجھیں اور اگر آپ نے انجینرنگ کےشعبہ کو اپنایا ہے تو اس کے عملی میدان میں آئیں۔ محض 23 جون کو ورلڈ وومن انجینرنگ ڈے کا سٹیٹس لگانے تک نہ رہیں بلکہ پاکستان میں خواتین کی انجینرنگز جابز میں 4.9 کے تناسب کو بڑھائیں بلکہ انجینرنگ کے شعبہ کوچھوڑیے اگر تمام سائنسی شعبہ جات میں دیکھا جائے تو فی میل تناسب ایک اندازے مطابق دس فیصد سے کم ہے ۔محض ڈگری لے کر سیٹ لے کر چار سال کے بعد اس کاغذ کے ٹکڑے کا سہارا لے کر خود کو انجنیئر کہلوانے کے علاوہ بھی تو کچھ کریں اور کچھ نہیں تو لوگوں میں شعور پیدا کرنے کا زریعہ بنیں ۔ ورنہ بہت سی پاکستان میں طالبات تنگ نظری کے سبب ڈگری تک پہنچ ہی نہیں پاتیں ۔
"پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ 2015 میں تعلیم اور ترقی کے بارے میں اوسلو سربراہی اجلاس میں، پاکستان کو "تعلیم میں دنیا کے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں" قرار دیا گیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں صرف 13% لڑکیاں نویں جماعت تک پہنچنے تک اسکول میں ہیں، یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ خاندان اپنی تعلیم اور کیریئر پر توجہ نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ جو لوگ تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کرتے ہیں، ان کی تعلیم پر یکساں توجہ اور ترجیح نہیں دی جاتی اور ان سے آسان مضامین لینے کی توقع کی جاتی ہے۔"
میڈیکل میں ایڈمشن کے لیے دو تین سال بیٹھے رہنے کے بعد اچھی خاصی طالبہ اپنے خواب کے بكھرنے کی وجہ سے جب مایوسی کے عروج پر ہو تو اسے میڈیکل کے علاوہ سائنس کی وسعت سمجھائیں ۔میڈیکل میں طالبات جتنی چاہیے اتنی ہی انجینرنگ کے شعبہ میں چاہیے ،آئی ٹی میں بھی چاہیے ،بزنس میں بھی چاہیے ہیں ۔کسی ایک شعبہ کی ہار کے غم میں ہر شعبے سے منہ موڑ لینا بے وقوفی ہے اگر انجینرنگ جیسی پروفیشنل ڈگری لی ہے تو اسے کام میں لائیے ،عملی میدان میں جائیے، ریسرچز میں خواتین کے 34% کے تناسب کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیجیے ۔ بحرحال اختتام پر اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہوں گی کہ بلاشبہ انجینرنگ کی پڑھائی مشکل بھی ہے ،وقت بھی لیتی ہے اور باریک بینی بھی مانگتی ہے ۔سو جو طالبات اس شعبہ میں ہیں ان کے لئے بہت سی دعائیں
[1] From website ‘https://ieee-pes.org/women-in-power/wip-events/international-women-in-engineering-day/#:~:text=International%20Women%20in%20Engineering%20Day%20is%20celebrated%20on%20June%2023,in%20the%20field%20of%20engineering.’Access date:May,25th ,2024
[1] From Wikipedia ,Topic:’Pakistani women in STEM’,Acess date 26th May,2024
[1]From Article:”Less than 10% women in STEM in Pakistan:gender stereotype or choice” by Myra Ahsan ,Article was published in digital 50.50(May 22nd,2022(.Access date:May 26th ,2024
[1] From Article:”Less than 10% women in STEM in Pakistan:gender stereotype or choice” by Myra Ahsan ,Article was published in digital 50.50(May 22nd,2022.Access date:May 26th ,2024
[1] From Wikipedia ,Topic:’PAKISTANI WOMEN IN:STEM”,Access date :May 25th ,2024