Skip to main content

قضیہ فلسطین اور بی ڈی ایس تحریک

Submitted by talhaoffice03@… on
Urdu
قضیہ فلسطین اور بی ڈی ایس تحریک

فلسطینیوں نے مزاحمت کے لئے جن راستوں کو اپنایا ان میں سے ایک بی ڈی ایس ہے۔ بی ڈی ایس مخفف ہے انگریزی کے بائیکاٹ، ڈیس انوسٹمنٹ اورسانکشن کا، یعنی انقطاع، ترکِ سرمایہ کاری اور پابندی کی تحریک۔

 

قضیہ فلسطین کا پس منظر 

استعماریت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا تسلط برقرار رکھنا اور مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ نو آبادیاتی دور کے خاتمے اور سابقہ مقبوضہ ممالک کے آزادی سے دنیا میں استعماری قوتوں کا تسلط ختم نہیں ہوا۔ گرچہ بظاہر اب ممالک آزاد اور خود مختار ہورہے تھے لیکن آزادی کے بعد ان پر تسلط کوقائم رکھنے کے لئے آزادی ہی کے مرحلے میں استعماری قوتوں نے کافی سیاست کھیلی۔ نتیجتاً ہوا یہ کہ بیشتر جگہوں پر آزادی اس طرح دی گئی جس سے کہ استعماری قوتوں کے مفادات کی حفاظت یقینی ہو۔ اس کے لئے جو زرین اصول طے کیا گیا وہ باٹنا اور حکمرانی کرنا(ڈِوائڈ اینڈ رُؤل)۔

اس کے لئے کئی طریقےاستعمال کئےگئے۔ ایک طریقہ تو فوجی آمریت کے ذریعہ سے استعماری قوتوں کے مفادات کی حفاظت کی گئی، دوسرا اکثریت اقلیت کے لاینحل جھگڑے چھیڑے گئے، جہاں دونوں فریق اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیئے ہمیشہ کسی طاقتور قوت کی مدد کے محتاج رہیں گے، جو کردار یہ استعماری قوتیں ادا کرتی ہیں اور ان ممالک کے اندرونی معاملات میں ہمیشہ مخل ہو کر اپنا مفاد بٹورتی ہیں۔ ان میں ایک اور طریقہ سٹلر کولونائیزیشن کا ہے، جہاں آزادی دینے سے کچھ مدت پہلے ، باہر سے ایک مہاجر آبادی کو لاکر پہلے سے آباد علاقوں میں بسایا جاتا ہے اور پھر مول واسی اور مہاجر والے جھگڑے چھیڑے جاتے ہیں اور اسی کے ذریعہ ان استعماری قوتوں کو دخل اندازی کا سدا بہار موقعہ دستیاب ہو جاتا ہے اور اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے ایک کو دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

قضیئہ فلسطین دراصل اسی آخر الذکر نوعیت کا معاملہ ہے۔ جنگِ عظیم اول کے بعد خطئہ شام اور فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کے ہاتوں سے نکل کر برطانوی سامراج کے تسلط میں آگیا۔ اسی دوران انہوں نے، 1917ء کے بدنامِ زمانہ بالفور ڈکلریشن کے ذریعہ سے دنیا بھر کے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانے لگے۔ جس کے لئے ان کو یہودیوں میں ابھرتی ہوئی صہیونی تحریک میں ہم نوا اور آلہ کار مل گیا۔ پہلے تو ان یہودیوں کو پناہ گزین مہاجرین کے طور پر لایا اور بسایا گیا اور پھر رفتہ رفتہ صہیونی تحریک کے ذریعہ خود فلسطین کی سر زمین پر صہیونی یہودوں کا دعوا کیا گیا۔ پھر جو ہوا اس کی تاریخ دنیا کے سامنے ہے۔ پہلے تو تشدد کے ذریعہ بہت منظم طریقے سے خوف و حراس پھیلایا گیا اور تشدد یا زبردستی کی خریداری سے فلسطینیوں کے زمینوں پر قبضہ جمایا گیا۔ پھر 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کا بٹوارہ کیا، جس کے بعد بہت بڑی تعداد میں تشدد کے ساتھ فلسطینیوں کو ان کے آبائی زمین اور گھروں سے باہر کیا گیا، جسے نکبۃ کے نام سے فلسطینی یاد کرتے ہیں اور سالانہ طور پر 15 مئی کو یوم نکبہ مناتے ہیں۔ اس کی بعد تاریخ کے وہ مراحل آئے جس میں فلسطینیوں کی مزاحمت، انتفاضہ، اسلواکورڈس، اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ، پھر مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی ریاست کا غیر قانونی آبادکاری کرنا اور فلسطینیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگانا، غزہ میں حماس کی حکومت اور اسرائیل کے ساتھ متعدد جنگیں شامل ہیں، جس کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں۔

بی ڈی ایس تحریک: تاریخ اور اثرات

فلسطینیوں نے مزاحمت کے لئے جن راستوں کو اپنایا ان میں سے ایک بی ڈی ایس ہے۔ بی ڈی ایس مخفف ہے انگریزی کے بائیکاٹ، ڈیس انوسٹمنٹ اورسانکشن کا، یعنی انقطاع، ترکِ سرمایہ کاری اور پابندی کی تحریک۔ صہیونی ریاستِ اسرائیل سے فلسطینیوں کی لڑائی کے تجربے کی روشنی میں رفتہ رفتہ یہ احساس ہوا کے یہ جنگ محض میدان ہی میں نہیں بلکہ ایوانانِ سیاست، بازار اور میڈیا کے محاذوں پر بھی لڑنی ہوگی۔ اس حوالہ سے فلسطینی مزاحمت میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا ہوتا گیا۔ سیاسی محاذ پر مختلف حکومتوں کے درمیان اثر و رسوخ پیدا کرکے، ان کے ذریعہ سے اسرائیل پر سیاسی دباؤ بنایا گیا۔ 

اسرائیل اپنے وجود کو لے کے ہمیشہ غیر محفوظ اور مغربی ممالک کے مرہونِ منت رہتا ہے، چاہے وہ مغربی حکمتوں کی مالی امداد کا معاملہ ہو، ہتھیار کی فراہمی ہو، اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی مجالس میں حمایت ہو، عالمی مالی اور دیگر بازاروں میں اسرائیل کی حصہ داری ہو، یہ سب مغرب میں اسرائیل کے تئیں مثبت رائے عامہ پر منحصر ہے۔ اس لیے اسرائیل مغرب میں اپنے تعلق سے خوب پروپگنڈا کرتا ہے، جس میں ہٹلر کے مظالم، اسرائیل کا مشرقِ وسطیٰ میں واحد جمہوری ملک ہونا، اسرائیلی عوام کا مغربی اقدار اور روایات کا حامل ہونا، اسرائیلی ریاست کو خطہ میں وجود کا خطرہ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس لئے ایک عرصے تک مغرب کی رائے عامہ فلسطینیوں کے تئیں منفی رہی۔ اس لئے میڈیا کے محاذ پر بھی توجہ دی گئی کہ فلسطین کے قضیہ کو مغربی عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے جس میں اسرائیلی پروپگنڈے کی کاٹ کی جائے اور فلسطینیوں کے مسائل اپنے حقیقت کے ساتھ مغربی عوام کے سامنے آئیں۔

سوشل میڈیا کے دور سے پہلے چونکہ عوام تک رسائی بالواسطہ ٹی وی، اخبار، جرائد یا فلموں کے ذریعہ سے ہوتی تھی اور ان ذرائع کی ضابطہ بندی ریاست کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس لئے ان پر ریاست کا کافی حد تک کنٹرول ہوتا تھا۔ ٹی وی یا اخبار و جرائد میں مباحثے کے لئے کون کون سی آراء پیش کرنی ہے عوام کے سامنے، کن افراد اور مفکرین کو موقع دینا ہے، فلموں میں کیا نریٹیو رکھنا ہے اور کیا سنسر کرنا ہے، ان سب کے متعلق حکومت اور حزبِ مخالف کے درمیان مفاہمت رہتی تھی کہ کن چیزوں میں اور کس حد تک اجازت رہے گی۔ سوشل میڈیا کی آمد نے ان حرکیات کو یکسر بدل دیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ اب ہر ایک کی عوام تک بہراہِ راست رسائی ممکن ہوگئی۔ اس کا فائدہ فلسطینی کاز کو بھی ملا۔ ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا کے دور سے قبل فلسطینیوں کو اپنی بات رکھنے کا موقع نہیں ملتا تھا، لیکن اب سوشل میڈیا کے توسط سے قضیہ فلسطین کی سچائی مغربی عوام تک پہنچ رہی ہے اور اب تو بلاخوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی عوام کی اکثریت کی رائے فلسطین کے حق میں ہے، گرچہ کہ خود انہیں کی حکومتیں صہیونی شکنجے سے نجات نہیں پاسکیں۔

رائے عامہ کی تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، معاشی محاذ پر بی ڈی ایس تحریک شروع کی گئی۔ بی ڈی ایس تحریک دراصل جنوبی افریقہ میں سابقہ سفید فام نسل پرست حکومت کے خلاف ترکِ نسلی علیحدگی تحریک سے حوصلہ پائی تھی۔ اس تحریک نے نسل پرست نظام کے خلاف کامیاب تحریک چلائی اور اس کا خاتمہ کیا۔ جنوبی افریقہ کی ترکِ نسلی علیحدگی تحریک خود ہندوستان کی آزادی تحریک، خاص طور سے ترکِ موالات مہم اور امریکہ کے شہری حقوق تحریک سے متاثر تھی۔ بی ڈی ایس تحریک 2005ء میں شروع کی گئی جب 170 فلسطینی تنظیمیں، تحریکیں اور این جی اوز نے مل کر اس کی داغ بیل ڈالی اور اس کے تین اہداف متعین کئے گئے:

1967ء کے بعد ہڑپی ہوئی فلسطینی اراضی کی واپسی اور غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں دیوار بندی کا خاتمہ۔

اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے لئے مساوی حقوق اور مراعات۔

بے دخل کئے گئے فلسطینیوں اور ان کی اولاد کی اپنے آبائی زمینوں میں واپسی۔

یہ تحریک اسرائیلی ریاست کے قبضے اور نسل پرست پالیسیوں اور اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف کام کرتی ہے اور اس کے لئے تین محاذوں پر اس کی کوشش ہے: 

معاشی محاذ

اس میں عوامی بیداری اور مذاکرات کے ذریعے اسرائیل سے معاشی تعلق رکھنے والے کمپنیوں اور تجارتی اداروں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنی تجارت اور سرمایہ کاری ختم کریں۔ چونکہ اسرائیلی معیشت کا بیشتر حصہ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری پر منحصر ہے، معاشی انقطاع اور ترکِ سرمایہ کاری سے اس کے معیشت پر گہرے نتائج مرتب ہوں گے اور ریاستِ اسرائیل پر دباؤ پڑےگا کہ وہ بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی پاسداری کرے اور قضیہ فلسطین کو حل کرے۔ اس محاذ پر اب تک جو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ان میں بہت ساری نجی کمپنیوں نے اسرائیل سے ترکِ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس عمل سے 2013- 2014 میں 46 فیصد ایف ڈی آر (یعنی بیرونِ ملک سےراست سرمایہ کاری) میں گراوٹ ہوئی۔ اسی طرح کئی ایک بڑی کمپنیوں نے عوامی دباؤ کے نتیجے میں اسرائیل سے اپنے تجارت کو ختم کیا جس سےکم از کم 20 بلین امریکی ڈالر کا نقصان اسرائیل کو اب تک ہوا ہے۔ اسی ضمن میں مقامی سطح پر کوششیں کی جارہیں کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے ناجائز آبادیوں کی پیداوار جو برآمد ہوتی ہے اس کا انقطاع ہو اور اس کے نیتجے میں کئی مغربی ممالک کے مقامی حکومتوں نے باقاعدہ قانون سازی کی ہے۔ قومی سطح پر آئرلینڈ کی حکومت نے یہ کام کیا ہے۔

ثقافتی محاذ:

اسرائیل پروپگنڈا کے لیے ثقافت کا خوب استعمال کرتا ہے۔ اس محاذ پر عالمی شہرت یافتہ فن کار، مصنفوں اور ثقافتی اداروں کو قائل کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل میں پروگرام نہ کریں اور نہ ہی اسرائیلی حکومت یا کسی بھی ادارے سے جڑیں، پراجکٹ یا ایونٹ میں شرکت کریں۔ ایسے فنکاروں، اداکاروں اور مصنفین کی تعداد اب ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح کینیڈا، اسکاٹ لینڈ، آئر لینڈ، جنوبی افریقہ، سوٹزر لینڈ، برازیل اور امریکہ میں متعدد عالمی نوعیت کے ثقافتی پروگراموں اور ایونٹس میں اسرائیلی فنکاروں اور اداروں کا انقطاع کیا جارہا ہے۔

تعلیمی محاذ:

 اسرائیل کی کامیابی میں اہم کردار علمی اور تحقیقی ترقی ہے۔ اس کے لئے شروع ہی سے اسرائیل نے کافی سرمایہ تعلیمی اور تحقیقی اداروں پر لگایا اور دنیا بھر کے سب سے معروف اور مشہور اداروں اور انجمنوں سے اشتراکی تعلقات قائم کئے۔اس کے نتیجے میں اسرائیلی یونورسیٹیوں نے اسلحہ سازی ٹیکنالوجی میں دنیا بھر میں سبقت حاصل کی اور اسلحہ و دفاعی ٹیکنالوجی میں اسرائیل کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس محاذ پر بی ڈی ایس تحریک دنیا بھر کے معروف محققین، اسکالرس، یونورسیٹیوں اور انجمنوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اسرائیلی تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے اپنا رشتہ منقطع کرلیں اور اپنی تحقیق کو اسرائیل سے شئیر نہ کریں۔ اس کے نتیجہ میں امریکا، یوکے، جنوبی افریقہ، سویڈن، آئرلینڈ، برازیل، بلجیم، ایٹلی، انڈیا، دنیا کی متعدد مشہور یونورسیٹیاں، تعلیمی، تحقیقی ادارے، اساتذہ اور طلبہ انجمنوں نے اپنا رشتہ ختم کیا۔ جن میں یوحانسبرگ، نیویارک، ماسیچیوسٹس، ہارورڈ سمیت آئی وی لیگ کے بیشتر یونورسیٹیاں شامل ہے۔ علمی انجمنوں کی تو ایک طویل فہرست ہے، جس میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ حالیہ جنگ میں بھی ان اداروں کا رائے عامہ کو بنانے میں غیر معمولی کردار رہا ہے۔

بی ڈی ایس اور ہندوستانی عوام

ہندوستان فلسطینی عوام کی آزادی اور خودمختاری کےلئے ان کے ساتھ روزِ اول سے کھڑا ہے ۔ لیکن ہندتوادی حکومت کے آنے کے بعد فلسطین کےتئیں انڈیا کی پالیسی میں تبدیلی واقع ہوئی اور اسرائیل سے قربت بڑھی ہے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ جہاں ہندتوا کی مسلم دشمنی ہے،جس سے وہ دنیا بھر میں کسی بھی مسلم دشمن قوت کو اپنا حلیف سمجھتا ہے، تو دوسری طرف ہندوستان کا اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلق ہے، خاص طور سے دفاعی صنعت اور ہتھیا ر ساز ٹکنالوجی کو لے کے۔اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات ۱۹۶۲ء سے ہیں جب چین کے ساتھ جنگ کے دوران انڈیا نے اسرائیل سے ہتھیار خریدے۔ اس کے بعد سے اس میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۹۹۲ء سے باقاعدہ سفارتی تعلقات بھی استوار کئے گئے۔ انڈیا اسرائیلی ہتھیار اور دفاعی ٹکنالوجی کا سب سے بڑا خریدار ہے (اسرائیلی دفاعی برآمد کا ۴۱ فی صد )۔ اس حوالے سے انڈیا کی سیکیوریٹی اسٹابلشمنٹ اسرائیل سے نہ صرف ہتھیار، ٹکنالوجی اور ٹرنینگ کے لے تعاون کرتی ہے، بلکہ اسرائیل کے فلسطینیوں کو سروئلنس اور کنٹرول کرنے کے تجربوں سے بھی استفادہ کرتا ہے اور ہندوستان میں اُنہیں عوام کو کنٹرول کرنے اور حکومت کے ناقدین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ ان تمام کے پیشِ نظر ہندوستان کے باضمیر شہریوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اس ظلم اور جاحیت کے خالاف اپنا کردار ادا کریں۔

اسرائیلی جارحیت ، اقوامِ عالم کی بے پرواہی ، اورمغربی ممالک کا دوہرا پن دیکھتے ہوئے کسی بھی دل رکھنے والے انسان کو یہ سوال ستائے گا کہ اسرائیل کے ظلم کو کیسے لگام دیا جائے۔اس حولے سے بی ڈی ایس کی تحریک ایک عام آدمی کو موقعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ بھی ایک مؤثر کردار ادا کرسکے۔ لیکن اس میں ایک اندیشہ یہ رہتا ہے کہ لوگ جذبات کے بہاؤ میں کچھ اس طرح کے اقدامات کردیں جس کا کوئی حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ بی ڈی ایس تحریک کے جانب سے تفصیلی اشارات جاری کئے گئے ہیں کہ مقامی سطح پر مذکورِ بالا محاذوں پر کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے کچھ اہم نکات پیشِ خدمت ہیں:

1۔ بائی کاٹ اجتماعی صورت میں ہی کارگر ہوتا ہے، ورنہ متوقع نتائج حاصل نہیں ہوپاتے۔ اس لئے ضرورری ہے کہ سب سے پہلے عوام میں بیداری اور حساسیت پیدا کی جائے۔ یہ بات کی وضاحت بھی سب کے سامنے رہنی چاہیے کہ بائیکاٹ جوابِ کل نہیں ہے ، بلکہ مزاحمت کے کئی طریقوں میں ایک راستہ ہے۔ بائیکاٹ ایک اہم آلہ ہے اور اس کا کافی اثر بھی ہو سکتا ہے اگر اس کا صحیح اور بر محل استعمال کیا جائے ۔ چنانچہ بائیکاٹ حالات پر محمول ہے۔ 

2۔ بائیکاٹ کی طویل اور نہ قابلِ عمل فہرست بنانے کا کوئی حاصل نہیں ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ چنندہ فہرست بنائی جائے۔ اس کو ٹارگیٹڈ بائیکاٹ کہتے ہیں اور یہ زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ طویل فہرست کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں بنا تحقیق کسی بھی یہودی کمپنی کو شامل کیا جاتا ہے ( یا اس کی فرانچائیزی کو) ، حالانکہ یہودیت اور صہیونیت مترادف نہیں ہیں اور صہیونیت کے سب سے متحرک ،فعال اور مؤثر ناقدین میں خود غیر صہیونی یہودی شامل ہیں۔ جن کمپنیوں کی راست شاخیں ہوتی ہیں ان کا بائیکاٹ تو بجا ہے، لیکن فرانچائزی کامعاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ بائیکاٹ میں اس کا لحاظ کیا جانا چاہیے ۔

3۔ اس کا م کو آسان بنانے کے لئے بی ڈی ایس تحریک، انقطاع کی فہرست کو چار اقسام میں بانٹ دیا ہے اور وہ درجِ ذیل ہیں: 

(الف) کنسیومر بائیکاٹ ٹارگٹ :

 یہ وہ کمپنیوں کی فہرست ہے جو اسرائیلی جارحیت میں قصداً ملوث ہیں، جن کے مالکان خود صہیونی ہیں یا کمپنی پالسی اسرائیل کے حق میں ہے۔ ان کا کلی بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

(ب) اورگینک بائیکاٹ ٹارگٹ: 

یہ مذکورِ بالا ہی کا اضافہ ہے۔ اس میں وہ کمپنیاں شامل ہیں جن کی خود بی ڈی ایس تحریک نے نشاندہی نہیں کی بلکہ دیگر لوگ یا تنظیموں نے ان کو نشانہ بنا یا اور بی ڈی ایس تحریک اس میں شامل ہوگئی۔ اس حوالے سےہر ملک میں ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو اسرائیل سے ہمدردی رکھتی ہیں یا اس سے تجارت کرتی ہیں ،ان کی فہرست ترتیب دے کراس کو بی ڈی ایس کے تواسط سے دنیا میں پھیلایا جاسکتاہے۔ 

 (ج) ڈیس انوسٹمنٹ ٹارگٹ

 یہ حکومتوں ، مالی اور دیگر اداروں پر دباؤ دالنے کی مہم ہے تا کہ وہ اسرائیلی کمپنوں میں سرمایہ کاری نہ کریں اور جن میں سرمایہ لگا ہے، اس سے فارغ ہو جائیں۔

(د) پریشر ٹارگیٹ:

 یہ ان کمپنیوں پر عوامی دباؤ بنانے کی مہم ہے جن کے اشیا اور خدمات کا اسرائیل گاہک ہے۔اس کا مقصود یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو اسرائیل سےاپنا کاروبار بند کرادیں۔ خود ان کمپنیوں سے کاروبار کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

 

حوالہ جات:

بی ڈی ایس کی ویب سائیٹ: 

https://bdsmovement.net/Act-Now-Against-These-Companies-Profiting-From-Genocide