یہ بات مبہم ہے، لیکن حقیقت ہے کہ ہماری 75 سالہ معاشی تاریخ بہر حال "جنگی معیشت" کی تاریخ رہی ہے۔
آغاز سے ہی کوریائی جنگ میں امریکہ زدگی ہو یا کشمیر ۔ افغانستان میں شمولیت, ریاست اور اسکی اشرافیہ نے ڈالر سے فائدہ خوب اٹھایا ہے البتہ اب معاملہ یہ ہے کہ جنگوں سے دنیا کو چلانے والے امریکہ کا اپنا حال بےحال ہے۔
کل شب برکس کی رپٹ پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ
یہ صدیوں بعد ہوا ہے کہ، مغرب خود جنگ و جدل اور اندرونی خلفشار کا شکار ہے، فلسطین میں اسرائل کی نسل کشی اور یوکرائن جنگ کا اصل نقصان مغرب کو، مغربی معیشت و تہزیب کو ہو رہا ہے اور تقابل میں ایشیاء اور لاطینی امریکہ اور افریقہ سست روی سے ہی سہی لیکن سوئے ترقی گامزن ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ اس واضح تبدیلی کو
۔1 سمجھ نہیں سکی یا
۔2 تبدیل ہونا نہیں چارہ رہی
ہماری ناقص رائے میں دونوں کا ہی حصہ ہے البتہ اغلب اپنا مزاج و انداز اور "مرکزِ امید" تبدیل کرنا ہے۔
برکس میں شامل ممالک کی معیشت کو برکس میں شمولیت کہ بعد ملکی سطح اور بین الملکی سطح پہ دیکھیں تو خوب سمجھ آتی ہے کہ صنعت و تجارت میں واقعی ارتقاء ہوا ہے، الجزیرہ کہ مطابق برکس ممبران کی باہمی تجارت میں 56 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جس میں ڈالر کو ترک کر کہ دیگر کرنسیوں کا استعمال واضح ہے۔جسکے نتیجہ میں مصنوعی معاشی ترقی نہیں بلکہ حقیقی اقتصادی ارتقاء اظہر من الشمس ہے۔
اس میں جنگی معیشت کا دخل کم اور غیر جنگی معیشت کی اٹھان واضح ہے۔ یہ کہنا غالبا غلو ہوگا کہ برکس ایک نئی عہد کا آغاز ہے البتہ یہ درست ہوگا کہ
پُرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں مِیر و سُلطاں سے بیزار ہے
گیا دَورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دِکھا کر مداری گیا
گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
ؒاقبال
سو پاکستانی مقتدرہ کو چاہیے کہ وقت کی صحیح تر نباضی کریں۔ ہمالہ سے بَلند اور سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی اور لوہے سے مضبوط دوستی کا کچھ تو فائدہ خود بھی اٹھائیں اور عوام کو بھی "اپنے حصہ کہ بعد" کچھ دینے پہ آمادہ ہو رہیں ۔۔
کچھ کھائیں کچھ لگائیں اور پاکستان کو اس بدلے منظر نامہ میں متعلق رکھنے کی کاوش کریں ۔
ہمارے لیے بین الاقوامی منظرنامہ میں اور ساتھ ہی اندرونی ملکی حالات میں یہ لازم ہے اب کی بار کسی مردِ درویش کا جملہ
Say No to Do More
کو سمجھا جائے اور نئی منازل کی تلاش میں اس گنجلک دنیا میں آگے بڑھا جائے۔۔۔