آزادی،جس کو انسانی سماج کی بنیادی اور اہم ترین اقدار میں شمار کیا جاتا ہے،جس کے نام ہی میں ایک فطری کشش پائی جاتی ہے، تمام مکاتب فکر اور فلسفہ نے اسے سراہا ہے۔آزادی کا تصور بدیہی ہوتے ہوئے بھی متنازع اور مختلف فیہ رہا ہے۔ مختلف معاشروں میں اس کی مختلف تشریحات کی گئی ہیں۔ اس تصور کے مبہم اور غیر واضح رہنے کی وجہ سے افراد اور اقوام کے رویے میں بھی افراط اور تفریط کی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔
آزادی کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
لفظ ِآزادی، عربی زبان کے لفظ حرّیت (Freedom) کا ترجمہ ہے۔ لسان العرب کے مطابق ہر قابل فخر اور عمدہ چیز کو’حُرّ‘کہتے ہیں اور افعال میں ہراچھے کام پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور انسانوں میں اَحرار ان کو کہتے ہیں جو ان میں سب سے بہتر اور افضل ہوں۔ آزادی کا کوئی متعین،منضبط اصطلاحی مفہوم ایسا نہیں ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ہر مکتب فکر وفلسفہ نے اپنے اپنے مفروضات کے مطابق اس کی تعبیر وتفسیر کی ہے۔1789ء میں حقوق انسانی کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ”آزادی یہ ہے کہ فردکو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے بشر ط یہ کہ اس کے عمل سے دوسروں کو کوئی ضرر لاحق نہ ہو۔
اسلام میں آزادی کا مفہوم
اللہ تعالی نے انسان کو بلا کسی تشدد اور ظلم وزیادتی کے اپنے حقوق کی حصول یابی اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے تصرف کی جوقدرت عطا کی ہے،اس کو حریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مغرب میں آزادی کا مفہوم
ہر قید وبند سے آزاد ی اور ہر ضابطہ سے چھٹکارا اورہر طرح کی نگرانی سے (خواہ اس کا سرچشمہ خود انسان کی ذات ہو) نجات پانے کا نام مغرب میں آزادی ہے۔چنانچہ اہل مغرب کے نزدیک آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو چاہیں کریں،جو چاہیں کھا ئیں، جو چاہیں پہنیں اور جیسا چاہیں عقیدہ رکھیں۔ کسی انسانی سماج میں اس قسم کی بے مہار آزادی کیا گل کھلائے گی، اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اس آزادی کا بھیانک نتیجہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ آج جو ملک اور قوم جتنی زیادہ اس آزادی کی پروردہ ہے وہ اتنی ہی زیادہ بڑے بڑے جرائم جیسے،چوری،قتل وغارت گری، عصمت دری، جنسی بے راہ روی،خیانت اور بد اخلاقی کی آماج گا ہ ہے۔
اسلام میں آزادی کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلو
اسلام میں آزادی کو کتنا بلند مقام حاصل ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقیدے کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی اسلام نے انسان کو مجبور نہیں کیا ہے جیساکہ نصِ قرآنی ہے: اِنّا ھَدَینَاہُ السَّبِیلَ اِمّا شَاکِراً وَ اِمَّا کَفُوراً (سورہ الدھر، آیت 03، ترجمہ:ہم نے اس کو راہ سجھا دی، چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا)یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان،عقیدہ اور توحید سے متعلق معاملات میں،جو کہ سب سے زیادہ اہم معاملات ہیں،انسان کو اختیار اور آزادی عطا کی ہے۔ یعنی سمیع و بصیر بنا کر اور اپنے نبیوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے شکر وکفر کا راستہ بتاکر اس کو اختیار دے دیا کہ وہ جس راستے کو چاہے اپنے لیے منتخب کرے۔جو راستہ بھی وہ اختیار کرے گا،اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: لَا اِکرَاہَ فِی الدِّّین قَد تَبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَیِّ،فَمَن یَکفُر بِالطَّاغُوتِ وَیُؤمِن بِاللَّہ فَقَدِ استَمسََک بِالعُروَۃِ الوُثقیٰ لَا انفِصَامَ لَھَا،وَاللَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (سورہ البقرہ، آیت 256، ترجمہ: دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے تو جس نے طاغوت سے انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے)اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: وَلَو شَاءَ رَبُّّکَ لَآمَنَ مَن فِی الاَرضِ کُلُّھُم جَمِیعاً اَفَانتَ تُکرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُوا مُؤمِنِینَ (سورہ یونس، آیت99، ترجمہ: اور اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین پر جتنے لوگ بھی ہیں سب ایمان قبول کرلیتے تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ مومن بن جائیں؟)اور ایک جگہ فرمایا: فَذَکِّر اِنَّمَا اَنتَ مُذَکِّر، لَستَ عَلَیھِم بِمُصَیطِر (سورہ الغاشیہ، آیات21-22، ترجمہ:تم یاددہانی کردو، تم بس ایک یاددہانی کردینے والے ہو۔تم ان پر داروغہ نہیں مقرر ہو۔)
اسلام چوں کہ دین فطرت ہے اس لیے اس نے افراط اور تفریط کی غیر فطری روش سے ہٹ کر اعتدال کی راہ اپنائی ہے۔اسلام کی نظر میں انسان پابند محض نہیں ہے کہ اس کو کسی طرح کے ارادہ واختیار کی آزادی نہ ہو۔اسی طرح وہ اس قسم کی موہوم اور بے مہارآزادی کو خارج کرتا ہے جو سماج میں انتشار اور بد امنی کا سبب بنے یا جس سے فساد فی الارض رونما ہوتا ہو۔اسلام ارادہ واختیار کی آزادی کو سراہتے ہوئے،جبر واکراہ کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام آزادی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک ایسا فریضہ تصور کرتا ہے جس سے دست برداری جائز نہیں۔وہ ایک خدائے واحدکی بندگی کا پابند بناکر سیکڑوں خداؤں کی بندگی سے انسان کو آزادی دلاتا ہے۔انسانی بھائی چارے کو تقویت پہنچا کر مضبوط،پائیدار اور صحت مند سماج کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ جان،مال،دین،عقل،عزت وآبرو کی حفاظت کو یقینی بناکر ترقی وخوشحالی کے وسیع امکانا ت پیدا کرتا ہے۔ منضبط آزادی کا پروانہ عطا کرکے انسان کو سعادت دارین کی شاہ راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عہد جاہلیت سے جاری غلامی کے انسٹی ٹیوشن کا معقول اور منصوبہ بند طریقہ سے خاتمہ کیا۔جب اسلام آیا تو غلامی کی بہت سی شکلیں سماج میں رائج تھیں۔دنیا پرست انسان غلامی کے ذریعے انسانوں کا استحصال کررہے تھے۔غلامی کے متعدد اسباب میں جنگ میں قید ی بنانا، غارت گر حملوں میں اُچک لینا،ماں باپ کا اپنے بچوں کو فروخت کردینا، رہن رکھ دینا، وغیرہ شامل تھا۔اسلام نے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت دی،کیوں کہ اس کا کوئی متبادل نہیں تھا۔
اسلام کے عطا کردہ حقِّ حریت کا اطلاق ہر قسم کی آزادی پر ہوتا ہے اوریہ بہت سارے انسانی حقوق کی بنیاد ہے، مثلاً ایمان و عقیدے کی آزادی،مذہب کی آزادی،غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی،کام کی آزادی،رہائش کی آزادی، ملکیت کی آزادی، فائدہ اٹھانے کی آزادی،سیاسی آزادی، شہریت کی آزادی، حتی کہ انسان کی انسانیت بھی اس کی آزادی کی مرہون منت ہے۔
اسلام اپنے تصور آزادی کو حقوق وفرائض کے توسط سے عملی جامہ پہناتاہے کیوں کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔اس لیے کہ جب تک حقوق کوفرائض سے مربوط اور منسلک نہیں کیا جاتا،انسان کا دوسرے انسانوں سے صحیح بنیادوں پر تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔اگر انسان اپنے حقوق سے واقف اور فرائض سے ناواقف ہوگا تو وہ اپنے فرائض کی ادائیگی سے قاصر رہے گا۔
اسلام ان حدود کے اندر اور ان مناہج کے ساتھ آزادی کی بنیادوں کو زندگی کے تمام معاملات میں جاری وساری رکھنے کا خواہش مند ہے۔ وہ زندگی کے اُن تمام گوشوں میں نافذ دیکھنا چاہتا ہے،جس سے فرد کی شرافت وکرامت وابستہ ہے۔شہریت سے متعلق معاملات ہوں یا دینی امور،غوروفکر اور تفسیر وتعبیر کے مواقع ہوں یا سیاست وحکومت کے مراحل، اسلام نے ہر جگہ آزادی کی مشعلیں روشن کی ہیں،جس کی مثال دوسری کسی بھی شریعت میں (قدیم وجدید)مثال نہیں دی جاسکتی۔
اسلام اس بات کا علم بردار ہے کہ انسان کی انسانیت،اس کی آزادی کی مرہون منت ہے۔مومن کی مستقل اور توانا شخصیت سازی کے پیش نظر نبی ﷺ نے اپنی سنتِ مطہرہ اور سیرتِ طیبہ میں آزادی کے اصول کی تمام معاملات میں زبردست حوصلہ افزائی فرمائی ہے،خواہ اُس کا تعلق غوروفکر سے ہو یا اظہار اور ابلاغ سے یا دین اور دنیا کے معاملات میں اجتہاد سے۔عہدِرسولﷺ اور عہد صحابہ اور اُس کے بعد کی اسلامی تاریخ وسیع تر آزادی کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
جہاں تک مطلق اور بے مُہار آزادی کا سوال ہے تو یہ سماج کو تباہ وتاراج کرنے والا رویہ ہے۔ آزادی اورجواب دہی میں لازم اور ملزوم کا رشتہ ہے۔آزادی اور جواب دہی کے لازم اور ملزوم ہونے کی مثال ڈرائیور اور ٹریفک کے نظام کی مانندہے۔آپ اپنے مذاق اور پسند کی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے آزاد ہیں اور جس سمت میں چاہیں قصد سفر کرسکتے ہیں۔ تاہم ٹریفک کے قوانین وضوابط کی پابندی کے معاملے میں آپ آزاد نہیں ہیں۔ آپ کی اپنی سلامتی کے لیے بھی اور دوسروں کی سلامتی کے لیے بھی ان ضابطوں کی پابندی لازمی ہے۔ بصورت دیگر آپ خود کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور دوسروں کو بھی نقصان سے دوچار کریں گے۔بلکہ ٹریفک کے پورے نظام کو درہم برہم کرنے کا سبب بنیں گے۔ لہذا انسان کی آزادی کے شانہ بہ شانہ ایسے قواعد وضوابط کا موجود ہونا بھی ضروری ہے جو اس کے مزاج کو درست رکھ سکیں۔ اس کو افراط وتفریط سے بچاکر اعتدال کی راہ پر گامزن رکھ سکیں اور حقوق وفرائض کے ساتھ مثبت تال میل کا عادی بنا سکیں۔ ایک فرد کی آزادی کتنی ہی قانونی اور برحق کیوں نہ ہو،یہ وہاں جاکر ختم ہو جاتی ہے جہاں دوسرے فرد کی آزادی شروع ہوتی ہے۔ آزادی کا برحق ہونا ہی کافی نہیں ہے اس کو دوسروں کے تئیں فرائض کا ہم رتبہ بھی ہونا چاہیے۔یہ سماجی زندگی کی ایسی ضرورت ہے جس سے انحراف جائز نہیں۔ کیوں کہ بغیر حدود وقیود اور قوانین وضوابط کے انسانی سماجی زندگی کا جادہ امن واستقرار پر گامزن رہنا ناممکن ہے۔ اس موضوع پر کنفیوژن کے مظاہر کا خاتمہ اس حقیقت کے ادراک کے بغیر نہیں ہوسکتا۔کیوں کہ بہت سے لوگ آزادی کا مفہوم سمجھنے اورجواب دہی کی قدر جاننے اور ان کو روبہ عمل لانے کے سلسلے میں اپنی نفسانی خواہشات کو راہ نما بنالیتے ہیں۔
دراصل مختلف انسانی سماجوں میں جو بگاڑ آیا ہے،مفادات کا زیاں ہوا ہے،امن وسکون ناپید ہوا ہے، اس کے پس پردہ دو بنیادی عوامل کار فرماہیں:
آزادی کی خواہش اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں افراط اور غلوکی وہ رَوِش جس میں دینی،اخلاقی اور عقلی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ لاپرواہی اور سرکشی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنہ وفساد کا موجب بنتا ہے۔
فرائض کی ادئیگی میں تقصیر، جس کا محرک خواہ لاعلمی اور عدم واقفیت ہو یا حکم عدولی اور سرکشی۔ اس کا نتیجہ حقوق ومصالح عامہ کے زیاں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام اپنے ربّانی اور حکیمانہ قانون سازی کے ذریعے آزادی اور جواب دہی اور اس سے متعلق حقوق وفرائض میں اعتدال،توازن اور ہم آہنگی کا خواہاں ہے۔تاکہ انسانی زندگی میں اخلاقی،سماجی اور تمدنی اعتبار سے توازن پیدا کرنے کے لیے مستحکم بنیاد فراہم ہوسکے۔
دراصل اسلام کا تصور آزادی بہت وسیع ہے۔ اسلام جب انسان کی آزادی کی بات کرتا ہے تووہ انسان کو ہر اس چیز سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے جو اس کی عزت وکرامت کو نیست ونابود کرنے والی ہو۔ چنانچہ وہ اس کے دل اور جذبات کوشیطانی محرکات اور نفسانی خواہشات کے غلبے سے آزاد کرتا ہے۔اس کی عقل اور سوچ کو اوہام وخرافات اور فکری انحرافات کی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے۔ وہ اس کے جسم وجان کو غلامی، رُسوائی، اور ظلم وجبر کے عناصر سے آزاد کر تا ہے۔وہ انسان کو صرف اللہ وحدہ لاشریک کا بندہ بناتا ہے۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے آزادی،عزت اور امتیاز کی زندگی پسند کی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ”وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِی آدَم وَحَمَلنَاھُم فِی البَّرِ وَالبَحرِ وَرَزَقنَاھُم مِّنَ الطَّیِّبَات ِ وَفَضَّلنَاھُم عَلَی کَثِیر ٍ مِمَّن خَلَقنَا تَفضِیلاً“ (سورہ بنی اسرائیل، آیت70، ترجمہ:اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور خشکی اور تری دونوں میں ان کو سواری عطاکی۔اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیااور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی)۔ اسی سیاق میں حضرت عمر ؓ کا مشہور قول ہے کہ: ”مَتَیٰ اِستَعبَدتُمُ النَّاسَ وقَد وَلَدَتھُم اُمَّھَاتُھُم اَحرَاراً“ (تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنالیا جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا؟) انسان جب جواب دہی کی بات کرتا ہے تو وہ انسان کی تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ وہ اسے ایک امانت خیال کر کے اس کی قدر و منزلت کا اعتراف کرے۔ ایسا کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ یہ بات بھی ایمان کے تقاضوں میں شامل ہو۔قرآن کہتا ہے کہ ”وَالَّذِینّ ھُم لِاَمَانَاتِھِم وَ عَھدِھِم رَاعُونَ“ (سورہ المعارج، آیت 32، ترجمہ:اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔) حضرت انس بن مالک ؓ سے ایک حدیث نبوی ﷺ مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”لَا اِیمَانَ لِمَن لا اَمَانَتَہ لَہُ،وَلَا دِینَ لِمَن لَا عَھدَ لَہ“(مسند احمد، حدیث نمبر 12567،ترجمہ: جو شخص امانت دار نہیں ہے اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں، اور جو شخص وعدے کا پابند نہیں ہے اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں)۔ اسلام تمام انسانوں کواپنے اپنے دائرہ عمل اور استطاعت ووسعت کے اعتبار سے جواب دہ قرار دیتاہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ”کُلُّکُم رَاعٍ ٍ وَکُلُّکُم مَسؤُولٌ عَن رَعِیَّتِہِ“ (صحیح البخاری، حدیث نمبر2558، ترجمہ: ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی اپنی ذمہ داری کی بابت باز پرس ہوگی۔) انسان کی جواب دہی کا دائرہ صرف دنیاوی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کی مسؤ ولیت کا سلسلہ آخرت تک دراز ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی اس انداز میں تربیت کرتا ہے کہ وہ جواب دہی کے معاملے کو آسان نہ سمجھیں۔خاص طور پر جب معاملہ عامۃ الناس کے مفادات کی نگرانی کا ہو۔اسلام میں ذمہ داری جتنی بڑی ہوتی ہے،احساس ذمہ داری بھی اسی قدرشدید ہوتا ہے۔