غزل
جب سج دھج کر وہ شاہِ حسن سوئے عاشقاں نکلے
پیروں سے زمیں نکلی، سروں سے آسماں نکلے
یہ دامن تو تھام لیا نہ رکھا مجھے تنہا
جب سج دھج کر وہ شاہِ حسن سوئے عاشقاں نکلے
پیروں سے زمیں نکلی، سروں سے آسماں نکلے
یہ دامن تو تھام لیا نہ رکھا مجھے تنہا
ہر زمانے میں دین کے احیا و تجدید کا کام جاری رہے، علما و فقہا کی تحقیقات و اجتہادات کا جائزہ لیا جاتا رہے، دین کی تعبیر و تشریح سے متعلق انسانی کاوشوں میں درآئی غلطیوں کی نشان دہی ہوتی رہے، زمان و مکان کے سیاق کے زیرِ اثر احکام و مسائل اور آرا و نظریات کو زمان و مکان کے بدلتے سیاق پر بار بار پیش کیا جاتا رہے، نئے احوال اور جدید انسان کی ضرورتوں کے مطابق کتاب و سنت کی رو
اردو داں حلقے کے لیے جغرافیائی سیاسیات کا موضوع ابھی نیا ہے۔ دنیا میں ہونے والی سیاسی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے علم کی اس شاخ، اس کی اصطلاحات، اور اس کے انطباقات سے واقفیت یقینا مفید ہے۔ زیر نظر مضمون میں جغرافیائی سیاسیات کے زاویے سے ایشیا و یوروپ میں رونما ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ ادارہ)
قادر مطلق نے محفلِ ارض و سما کو سجایا ۔ اس میں آدم خاکی کی تخلیق کی اور اسے اختیارات دے دیے کہ حسبِ مرضی جیسے چاہے اپنے لمحاتِ زندگی گذارے۔وجودِ انساں سے لیکر آج تک کروڑوں انسان درِ گور ہوچکے ہیں۔افراد کی اس بھیڑ میںکچھ ایسی بھی شخصیات گذری ہیںجن کے افعالِ صالحہ سے آج بھی اوراقِ تاریخی منور ہیں۔ان کے اعمال ،طرزِ حیات،اجتہاد ان کو دیگر افراد سے منفرد مقام عنایت کرتا ہ
یہ الفاظ کئی بار ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔کبھی کسی معصوم کے قتل کے بعد تو کبھی کسی معصوم کی خود کشی کے بعد اور پھر ایک زبردست تحریک اٹھتی ہے جو جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھنے والی معصوم جانوں کے لیے انصاف کا تقاضہ کرتی ہے ، معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کا عزم کرتی ہے اور پھر کچھ وقت بعد یہ تحریک کہیں گم ہو جاتی ہے۔کسی واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ذہنی دباؤ ، گھر
آزادی،جس کو انسانی سماج کی بنیادی اور اہم ترین اقدار میں شمار کیا جاتا ہے،جس کے نام ہی میں ایک فطری کشش پائی جاتی ہے، تمام مکاتب فکر اور فلسفہ نے اسے سراہا ہے۔آزادی کا تصور بدیہی ہوتے ہوئے بھی متنازع اور مختلف فیہ رہا ہے۔ مختلف معاشروں میں اس کی مختلف تشریحات کی گئی ہیں۔ اس تصور کے مبہم اور غیر واضح رہنے کی وجہ سے افراد اور اقوام کے رویے م
مظلوم کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی
کیوں بھلا ظالم کی رُسوائی نہیں ہوتی؟
اکثر دشمنانِ دین یہ ہم سے پوچھتے ہیں
تمہارے خُدا کو کیا حیرانی نہیں ہوتی؟
مرنے والے ہیں کہ شان سے مرجاتے ہیں
کم ظرف قاتلوں کو پشیمانی نہیں ہوتی