Skip to main content

فکری حفاظت کے ساتھ کارِ تجدید (مولانا مودودیؒ کے اصلاحی ماڈل کا تعارف)

Submitted by talhaoffice03@… on
Periodical
 اردو
مولانا مودودیؒ

ہر زمانے میں دین کے احیا و تجدید کا کام جاری رہے، علما و فقہا کی تحقیقات و اجتہادات کا جائزہ لیا جاتا رہے، دین کی تعبیر و تشریح سے متعلق انسانی کاوشوں میں درآئی غلطیوں کی نشان دہی ہوتی رہے، زمان و مکان کے سیاق کے زیرِ اثر احکام و مسائل اور آرا و نظریات کو زمان و مکان کے بدلتے سیاق پر بار بار پیش کیا جاتا رہے، نئے احوال اور جدید انسان کی ضرورتوں کے مطابق کتاب و سنت کی روشنی میں نیا اجتہاد کیا جائے، یہ سب از حد ضروری ہے۔ اتنا ہی ضروری جتنا ایک انسان کے لیے تازہ ہوا میں تنفس ضروری ہوتا ہے۔

تاہم دین پر لوگوں کا اعتماد باقی رہے، دین کی اساس اور اس کے ستون سلامت رہیں، لوگوں کے اس ایمان کو ٹھیس نہ پہنچے کہ دین اپنی اصل میں محفوظ ہے۔ یہ بھی بہت ضروری ہے، اسی طرح جس طرح ایک انسان کے لیے اعصابی قوت کا برقرار رہنا ضروری ہوتا ہے۔

اصلاح حال کی مثالی صورت یہ ہے کہ دین کے احیا و تجدید کا کام بھرپور طریقے سے کیا جائے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ دین پر لوگوں کا اعتماد مجروح نہ ہو۔ قرآن و حدیث کی مرجعیت پر حرف نہ آئے، فقہا و مجتہدین کے چھوڑے ہوئے ورثے کو تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ نہ خیال کیا جائے۔

حفاظت و تجدید اور انتہا پسندی

لیکن اکثر ایسا ہوا کہ توجہ یا تو پورے طور پر تجدید و اجتہاد کی طرف مرکوز ہوجاتی ہے، یا پھر پورے طور پر حفاظت کی طرف مرکوز رہتی ہے۔جس کے نتیجے میں مسلم امت میں دین کی حفاظت اور تجدید کے درمیان تناؤ کی کیفیت رہی ہے، یہ تناؤ تشویش ناک صورت اختیار کرلیتا ہے جب مسلک حفاظت اور مسلکِ تجدید دونوں ہی سے وابستہ لوگ اپنی انتہاؤں پر پہنچ جاتے ہیں، دونوں کے درمیان شدید تصادم کی نوبت آجاتی ہے، اور دونوں ایک دوسرے کی راہ میں مزاحم ہوجاتے ہیں۔

مثال کے طور پر حدیث کے حوالے سے تجدید کے نام پر ایک گروہ اس انتہا پر پہنچتا ہے کہ وہ پورے ذخیرہ احادیث کو مشکوک بنادینا چاہتا ہے، تو دوسرا گروہ حدیث کی حفاظت میں اتنا سخت ہوتا ہے کہ کسی ایک حدیث پر تحقیقی تنقید کو انکار حدیث قراردے دیتا ہے۔اسی طرح کوئی فقہ کے تمام ذخیرے کو دریا برد کرنےکی بات کرتا ہے تو کوئی فقہ کے کسی ایک چھوٹے جزئیے پر بھی تنقید سننے کا روادار نہیں ہوتا ہے۔کسی کے نزدیک سلف سے منقول پورا لٹریچر نا قابل اعتنا ہے تو کوئی سلف کے قول کو ہی آخری حجت سمجھتا ہے۔کوئی عوام کے لیے بھی تقلید کو ناجائز قرار دیتا ہے اور کوئی علما کے لیے بھی سخت شرطیں عائد کرکے اجتہاد کا دروازہ بند کردیتا ہے۔ظاہر ہے ایسی صورت حال میں حفاظت اور تجدید دونوں ایک دوسرے کی ضد بن جاتے ہیں۔تجدید کے جوش میں نعرہ بلند ہوتا ہے کہ تقلید شرک ہے، اور حفاظت کے جوش میں نعرہ بلند ہوتا ہے کہ غیر مقلدیت کفر ہے۔

پورے مسلک کو غلط کہنے کا رجحان

طرفہ تماشا یہ ہے کہ دین کی حفاظت کے علم بردار لوگوں کے درمیان دین کی حفاظت کے بالکل منافی ایک برائی یہ عام ہے کہ وہ کسی مسلک کی کچھ چیزوں سے اگر اختلاف رکھتے ہیں تو پورے مسلک کو غلط قرار دے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر تقلید کے جوشیلےحامی غیر مقلدیت کو غلط کہتے ہوئے تمام اہل حدیث کو اور ان کے تمام علما کو غلط کہتے ہیں۔ اور غیر مقلدیت کے پرجوش علم بردار تقلید کو غلط کہتے ہوئے چاروں فقہی مذاہب کو اور ان کے پورے فقہی سرمائےکو غلط قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ اگر بحث کو تقلید کے مسئلے تک محدود رکھا جاتا، اور پورے مسلک اور فرقے کو نشانہ نہیں بنایا جاتا تو صورت حال اتنی نہ بگڑتی۔

متشدد حنفی کی تقریر سن کر لگتا ہے کہ اہل حدیث میں کوئی خیر ہے ہی نہیں اور وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں اور متشدد اہل حدیث کی تقریر سن کر لگتا ہے کہ احناف میں کوئی خیر نہیں پایا جاتا ہے اور وہ یکسر گمراہ ہیں۔حالاں کہ دیکھا جائے تو ان کے درمیان بے شمار مسائل و احکام میں اتفاق ہوتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دین کی اصل عمارت پر ان سب کے درمیان اتفاق ہوتا ہے۔ اور اس اصل عمارت کو یہ دونوں ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔

یہی حال کلامی مسائل میں ہے، انتہا پسندسلفی اشاعرہ کو اہل بدعت کہتے ہیں اور انتہا پسند اشاعرہ سلفیوں کو اہل بدعت کہتے ہیں۔ یہ دراصل اپنی عمارت سے محبت کے جوش میں دوسرے کی پوری عمارت کو گرادینے کی کوشش ہوتی ہے، اس رویے سے دین کی عمارت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ ایک عام آدمی اس حیرت میں پڑجاتا ہے کہ جب سب کچھ غلط ہے تو دین میں صحیح کہاں ہے۔

دینی مسائل پر بحث و تنقید کا صحت مند طریقہ یہ ہے کہ ہر مسئلے پر الگ الگ گفتگو کی جائے اور غیر جانب دارانہ رائے دی جائے۔ ہر مسئلہ کو پوری امت کو درپیش مسئلے کی حیثیت سے لیا جائے اور اس کا تجزیہ کیا جائے۔ لیکن مسائل کو فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم کردینا اور اپنے مسلک کے ہر مسئلے کے دفاع کو ضروری سمجھنا، اور کچھ مسئلوں میں اختلاف کی بنیاد پر پورے فرقے یا مسلک کو غلط قرار دینا صحت مند رویہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر وحدت الوجود کی رائے کو غلط کہا جائے تو یہ ایک متعین غلطی کی نشان دہی ہوتی ہے، لیکن تصوف کو غلط کہا جائے تو یہ امت کے بڑے حصے کو اور اس کے حصے کی پوری دینی میراث کو غلط ٹھیرانا ہوتا ہے۔ اس طرح اگر مختلف مسائل میں ہونے والی غلطیوں کی بنیاد پر مختلف مسالک کو غلط قرار دیا جائے تو آخر کار پوری امت ہی غلط نظر آتی ہے، اور دین کی اصل عمارت غیر محفوظ لگنے لگتی ہے۔

دین سے متعلق کسی ایک مسئلے یا بہت سے مسائل پر گفتگو کرنے اور کسی رائے کو غلط کہنے اور کسی رائے کو صحیح کہنے سے دین کی عمارت پر اثر نہیں پڑتا ہے، خواہ ان مسائل کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ تاہم جب امت کے پورے پورے مسلک کو غلط قرار دیا جاتا ہے، تو یہ دین کی عمارت کو ہلا دینے کے مترادف ہوتا ہے۔

فتنہ بریلویت، فتنہ دیوبندیت، فتنہ وہابیت، فتنہ سلفیت، فتنہ اخوانیت اور فتنہ مودودیت جیسی اصطلاحیں ایسی ذہنیت کی ترجمانی کرتی ہیں جسے دین کی عمارت کی حفاظت کی ذرا فکر نہیں ہوتی ہے۔یا جو حفاظت کے زعم میں عمارت کو خطرہ پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔امت میں ایسی اصطلاحات کو رواج دینا امت اور دین کے حق میں مہلک حد تک نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کا اصلاحی ماڈل

اصلاح و تجدید کا جوش حفاظت کی فکر مندی سے آزاد نہ کرے ورنہ اصلاح و تجدید کا بے لگام کام امت میں نئے فتنوں کو جنم دیتا ہے۔ اور اگر فتنوں سے دین کو محفوظ رکھنے کی فکر اصلاح و تجدید کی راہوں کو مسدود کردے تو یہ خود ایک بڑا فتنہ ہوتا ہے۔

اصلاح کے عمل کی مثالی صورت یہ ہے کہ دین کے احیا و تجدید کا کام دین کی حفاظت کی فکر کے ساتھ کیا جائے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہوئےیہ ماڈل بہت نمایاں ہوکر سامنے آتاہے، مولانا مودودیؒ دین کی مروجہ صورت کی اصلاح بھی چاہتے تھے، اور دین کی اصل قدیم صورت کی حفاظت کے لیے بھی فکر مند تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ دین کی موجودہ عمارت کی مرمت اور جدید کاری تو ضرور کرنا چاہتے تھے، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ عمارت کا کوئی حصہ ڈھے نہ جائے، کہیں کوئی دراڑ نہ پڑے، اور عمارت کسی طرح کی کم زوری کا شکار نہ ہوجائے۔عمارت کی مثال دیتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں :

آپ تقلید جامد اور اندھی پیروی کی جتنی چاہیں برائی کرسکتے ہیں۔ سب بجا اور درست۔ آپ یہ کہنے کا حق بھی رکھتے ہیں کہ ولایت، امامت، اجتہاد اور علم و فضیلت بزرگوں پر ختم نہیں ہوگئیں۔ آج بھی یہ سب مرتبے حاصل ہوسکتے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن تقلید کی مخالفت اور اجتہاد کا شوق اگر اس حد تک پہنچ جائے کہ بزرگان سلف کے خلاف ایک ضد سی پیدا ہوجائے، اور ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کو خواہ مخواہ ڈھادینا ہی ضروری سمجھ لیا جائے، اور محض نئی بات پیدا کرنے کی خاطر جدت طرازیاں کی جائیں، اور لوگ اہلیت کے بغیر اجتہاد شروع کردیں اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کو بازیچہ اطفال بنالیں، تو حق یہ ہے کہ یہ گمراہی اندھی تقلید کی گمراہی سے بدرجہا زیادہ سخت اور دین کے حق میں بدرجہا زیادہ نقصان دہ ہے۔ مقلدین تو صرف اتنا ہی کرتے ہیں کہ جو دیواریں ان کے اسلاف اٹھاگئے ہیں، ان پر زمانے کی ضروریات کے مطابق کسی مزید تعمیر کا اضافہ نہیں کرتے۔ لیکن وہ پچھلی عمارت کو جوں کا توں قائم تو رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے یہ جدت پسند حضرات پچھلی دیواروں کو بھی ڈھادیتے ہیں اور خود اپنے من مانے طرز پر نئی عمارت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ذہنیت اگر فروغ پاجائے تو اندیشہ ہے کہ پورا دین ہی مسخ ہوجائے گا اور نہ معلوم اس کی شکل کیا سے کیا بنا کر رکھ دی جائے گی۔(سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۴۸)

احادیث، فقہ اور سلف

مولانا مودودیؒ کو دین کی حفاظت کا بہت خیال تھا، انھوں نے کبھی امت کے کسی فرقے یا مسلک کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، ہمیشہ متعین مسائل پر گفتگو کی۔ یہاں تک کہ معتزلہ کے سلسلے میں بھی مولانا کا موقف یہی تھا کہ ان کی جو باتیں غلط ہیں صرف انھیں کو غلط کہا جائے، بالکلیہ ان کے پورے ذخیرہ فکر اور سرمایہ علم کے غلط ہونے کا حکم صادر کرنا درست نہیں ہے، مولانا لکھتے ہیں :

حضرت آدم کو جس جنت میں رکھا گیا وہ کہاں تھی؟ اس سوال کے جواب میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں :

اس میں شک نہیں کہ دوسرا قول بعض معتزلی علما نے اختیار کیا ہے۔ مگر یہ معتزلہ کے ان مخصوص مسائل میں سے نہیں ہے جن کی بنا پر وہ معتزلی قرار دیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ہر بات اعتزال اور ہر ایک رد کردینے کے لائق تھی تو یہ بڑی زیادتی ہے۔ ان کے شدید ترین مخالف امام رازی تک نے ابو مسلم اصفہانی اور زمخشری جیسے معتزلیوں کی بہت سی باتوں کو قبول کیا ہے، اور دوسرے اہل علم نے بھی ان کو علمی اچھوت نہیں سمجھا کہ ایک بات کو صرف اس لیے رد کردیں کہ وہ کسی معتزلی نے کہی ہے۔(سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۹۷، ۹۸)

اس کے علاوہ مولانا مودودیؒ نے ان میدانوں میں جہاں حفاظت و تجدید کے درمیان شدید تناؤ تھا، ایسا راستہ تجویز کیا جو دونوں کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔حفاظت و تجدید کے اس تناؤ میں احادیث، قدیم فقہ اور امت کے سلف صالحین کے موضوعات سب سے زیادہ زیر بحث آتے ہیں، ذیل کی سطور میں انھی کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

احادیث کے سلسلے میں حفاظت و تحقیق کا راستہ

احادیث کے تعلق سے مولانا مودودیؒ نے ایسا راستہ اختیار کیا جس میں ذخیرہ احادیث کا اعتبار بھی باقی رہے اور احادیث میں تحقیق کا دروازہ بھی کھلا رہے، مولانا لکھتے ہیں :

تمام احادیث کو مطلقاً غلط سمجھنے والے بھی غلطی پر ہیں اور تمام احادیث کو مطلقاً صحیح سمجھنے والے بھی۔ وہ لوگ بھی راہ راست سے ہٹ گئے ہیں جو احادیث اور قرآن مجید میں فرق نہیں کرتے۔ اور وہ لوگ بھی گمراہی میں مبتلا ہیں جو احادیث کو قطعا ناقابل احتجاج قرار دیتے ہیں۔ صحیح راستہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے اور وہ درمیانی راستہ نظر نہیں آسکتا جب تک کہ دیکھنے والا ان متضاد نقطوں سے ہٹ کر وسط کے نقطے پر نہ آجائے۔ پس اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ جزئیات میں الجھنے کے بجائے انتہا پسندوں کے نقطۂ نظر پر براہ راست حملہ کیا جائے اور ان کو وہاں سے ہٹاکر صحیح نقطۂ نظر پر کھینچ لایا جائے۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۳۵۱)

وہ درمیانی راستہ کیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں :

یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ احادیث اس حد تک محفوظ نہیں ہیں جس حد تک قرآن مجید ہے، مگر اس سے تجاوز کرکے یہ فرض کرلینا صحیح نہ ہوگا کہ وہ مطلقاً محفوظ ہی نہیں ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا کوئی قول اور عمل ہم تک صحت کے ساتھ پہنچا ہی نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ روایات کے طریقوں اور راویوں کے احوال کی چھان بین میں بہت دقتیں پیش آئی ہیں، اور ان میں محدثین کے درمیان اختلافات بھی ہوئے ہیں، مگر فن حدیث کی تاریخ شاہد ہے کہ محدثین نے تحقیق و تفتیش کا پورا پورا حق ادا کردیاہے اور اس کام میں اتنی محنتیں کی ہیں کہ ان سے زیادہ انسان کے بس میں نہ تھیں۔ انھوں نے اپنی محنتوں سے جو ذخیرہ فراہم کیا ہے وہ آج ہمارے پاس موجود ہے اور ان کے درمیان جو اختلافات ہوئے ہیں وہ بھی تمام دلائل اور شواہد کے ساتھ موجود ہیں۔اگر کوئی اس ذخیرے پر نظر ڈالے تو اس کے لیے آج تیرہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے کیا فرمایا اور کیا نہیں فرمایا، کیا کیا اور کیا نہیں کیا، اور یہ کہ ہر روایت جو آپ کی طرف منسوب ہے وہ اپنی صحت اور اپنے قابل احتجاج ہونے کے لحاظ سے کیا پایہ رکھتی ہے، لیکن یہ ناقابل انکار ہے کہ علم کا جیسا مستند اور معتبر ذریعہ قرآن مجید ہے، ویسا مستند اور معتبر ذریعہ حدیث نہیں ہے، اس لیے صحت کا اصلی معیار قرآن ہی ہونا چاہیے۔ جو چیز قرآن کے الفاظ یا اسپرٹ کے مخالف ہوگی اسے ہم یقینا رد کردیں گے، اور جو چیز قرآن کے الفاظ یا اسپرٹ کے موافق ہوگی، اور تعلیمات قرآن کی ایسی تشریح و توضیح یا احکام کی ایسی تفصیل ہوگی جو قرآن کے الفاظ یا اسپرٹ کے خلاف نہ ہو، اور روایت و درایت کے طریقوں سے اس کے معتبر ہونے کا ظن غالب بھی ہوجائے گا، اس کو ہم ضرور تسلیم کریں گے، اور اپنی عقلی تفسیر و تشریح اور اپنی رائے پر اس کو ترجیح دیں گے۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۳۵۱)

صحیح بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین بار جھوٹ بولنے کا تذکرہ آیا، مولانا نے اس حدیث کو درایت کے پہلو سے ناقابل قبول قرار دیا، اس پر اٹھنے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں :

اب ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ اگر یہ تینوں باتیں ازروئے درایت غلط ہیں تو اہل روایت نے ان احادیث کو اپنی کتابوں میں درج ہی کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درایت کا تعلق احادیث کے نفس مضمون سے ہے، اور روایت کا تعلق تمام تر سند سے۔ اہل روایت نے جو خدمت اپنے ذمے لی تھی، وہ دراصل یہ تھی کہ قابل اعتماد ذرائع سے نبیﷺ کے عہد سے متعلق جتنا مواد ان کو بہم پہنچے، اسے جمع کردیں۔ چناں چہ یہ خدمت انھوں نے انجام دے دی۔ اس کے بعد یہ کام اہل درایت کا ہے کہ وہ نفس مضمون پر غور کرکے ان روایات سے کام کی باتیں اخذ کریں۔ اگر اہل روایت خود اپنی اپنی فہم کے مطابق درایت کا کام بھی کرتے اور مضامین پر تنقید کرکے ان ساری روایتوں کو رد کرتے جاتے، جن کے مضمون ان کی انفرادی رائے میں مناسب نہ ہوتے، تو ہم اس بہت سے مواد سے محروم رہ جاتے جو مجموعہ احادیث مرتب کرنے والوں کے نزدیک کام کا نہ ہوتا اور دوسرے بہت سے لوگوں کے نزدیک کام کا ہوتا۔ اس لیے یہ عین مناسب تھا کہ اہل روایت نے زیادہ تر تنقید اسناد تک اپنے کاموں کو محدود رکھا اور تنقید مضامین کی خدمت انجام دینے والوں کے لیے معتبر اسناد سے بہم پہنچایا ہوا مواد جمع کردیا۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص۲۸۳)

کچھ روایتوں کی وجہ سے سب روایتیں غیر معتبر نہیں ہوتی ہیں

حدیث کے میدان میں مولانا مودودیؒ نے حفاظت و تحقیق کے تقاضوں کو کس طرح بیک وقت برت کر دکھایا، اس کا اندازہ حسب ذیل مثال سے بخوبی کیا جاسکتا ہے، ایک حدیث مختلف سندوں سے آئی ہے، اس میں حضرت سلیمانؑ کا اپنی بیویوں کے پاس جانے کا واقعہ ہے، حدیث کی مختلف روایتیں ہیں اور ان میں مذکور بیویوں کی تعداد میں اختلاف ہے، مولانا تعداد کے اس اختلاف کی بنا پر حدیث کو غلط کہنے کے بجائے، راویوں کی ثقاہت اور اسناد کی کثرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی ایسی توجیہ کرتے ہیں کہ راوی کی غلط فہمی تک بات آکر ٹھہر جائے۔ مولانا کی اس توجیہ سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ آخر میں وہ اس پر زور دیتے ہیں کہ کچھ روایتوں کی وجہ سے پورے ذخیرہ احادیث کو غیر معتبر نہیں کہا جاسکتا ہے، مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں :

اس طرح کی غلط فہمیوں کی مثالیں متعدد روایات میں ملتی ہیں جن میں سے بعض کو دوسری روایتوں نے صاف کردیا، اور بعض صاف ہونے سے رہ گئیں۔ زبانی روایتوں میں ایسا ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اور اس طرح کی چند مثالوں کو لے کر پورے ذخیرہ احادیث کو ساقط الاعتبار قرار دینا کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔(سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص۲۸۹)

ابراہیم علیہ السلام سے منسوب جھوٹ بولنے والی روایت پرمولانا مودودیؒ نے تنقید کی تو یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا اس طرح ساری حدیثیں مشکوک نہیں ہوجائیں گی؟

مولانا مودودیؒ نے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے احادیث کے رد و قبول کے سلسلے میں اپنامعتدل موقف پیش کیا کہ صحیح سند سے مروی حدیث کو اسی وقت رد کیا جائے گا جب کہ ایسا کرنا ناگزیر ہوجائے۔ اس طرح تحقیق کا سفر بھی جاری رہے گا اور حدیث کی عمارت بھی محفوظ رہے گی، مولانا لکھتے ہیں :

بعض حضرات اس موقع پر یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر اس طرح کے دلائل سے محدثین کی چھانی پھٹکی ہوئی ایک صحیح السند روایت کے مضمون کو مشکوک ٹھیرادیا جائے تو پھر ساری ہی حدیثیں مشکوک قرار پاجائیں گی۔ لیکن یہ خدشہ اس لیے بے بنیاد ہے کہ متن کی صحت میں شک ہر روایت کے معاملے میں نہیں ہوسکتا، بلکہ صرف کسی ایسی روایت ہی میں ہوسکتا ہےجس میں کوئی بہت ہی نامناسب بات نبی ﷺ کی طرف منسوب ہوئی ہو اور وہ کسی توجیہ سے بھی ٹھیک نہ بیٹھتی ہو۔ اس طرح کی بعض روایتوں کے متن کو مشکوک ٹھیرانے سے آخر ساری روایتیں کیوں مشکوک ہوجائیں گی؟ پھر یہ امر بھی غور طلب ہے کہ جن نامناسب باتوں کی کوئی معقول توجیہ ممکن نہ ہو، ان کا نبی ﷺ کی طرف منسوب ہونا زیادہ خطرناک ہے، یا یہ مان لینا کہ محدثین کی چھان پھٹک میں بعض کوتاہیاں رہ گئی ہیں، یا یہ کہ بعض ثقہ راویوں سے بھی نقل روایات میں کچھ غلطیاں ہوگئی ہیں؟ بتائیے، ایک صاحب ایمان آدمی ان دونوں باتوں میں سے کس بات کو قبول کرنا زیادہ پسند کرے گا۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص۲۸۵)

احادیث اور فقہ، دونوں کی تحقیق اور دونوں کی حفاظت

امت میں احادیث کی سند کو بنیاد بنا کر شریعت کی اصلاح کی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، جو صحیح سند والی حدیث کی بنا پر اس سے بظاہر متعارض فقہی اجتہاد کو مطلق رد کردینے کی دعوت دیتی ہیں۔ احادیث کے ذریعےتجدید کی دعوے دار ان تحریکوں کے مقابلے میں فقہ کی حفاظت کی جوابی تحریکیں بھی اٹھتی ہیں۔اس طرح امت میں دو بڑے موقف سامنے آتے ہیں، ایک گروہ صحیح سند والی حدیث کی بنا پرفقہا کے اقوال کو مطلق رد کردینے کی بات کرتا ہے، تو دوسرا گروہ فقیہ کے قول کے سامنے کسی حدیث کو سننے کا روادار نہیں ہے۔ یہ دونوں ہی رویے امت کے اندر شدید بے چینی اور اضطراب کا سبب بنتے ہیں۔ ان کی وجہ سے امت میں تفرقہ اور انتشار میں بہت اضافہ ہوا۔یہاں بھی تجدید اور حفاظت میں انتہا پسندی اور دونوں کے بیچ تناؤ کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کا موقف یہ ہے کہ حدیث کی سند کی تحقیق و توثیق ایک انسانی کوشش ہے، اور مجتہد کا اجتہاد بھی ایک انسانی کوشش ہے۔ اس لیے مطلق کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہر مسئلہ میں دونوں کو سامنے رکھ کر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ اہل علم کا کام ہے، دوسرے لفظوں میں اسے تحقیق گاہوں کا موضوع ہونا چاہیے نہ کہ عوامی تحریکوں کا۔ وہ لکھتے ہیں :

اسناد حدیث اور تفقہ مجتہد میں سے کسی کو کسی پر مطلقاً تفوق نہیں دیا جاسکتا۔ اسناد حدیث اس بات کی ایک شہادت ہے کہ جو روایت نبی ﷺ سے ہم کو پہنچ رہی ہے، وہ کہاں تک قابل اعتبار ہے۔ اور تفقہ مجتہد ایک ایسے شخص کی فیصلہ کن رائے(judgment) ہے جو کتاب و سنت میں گہری بصیرت رکھنے کے بعد ایک رپورٹ کے متعلق اندازہ کرتا ہے کہ وہ کہاں تک قابل قبول ہے اور کہاں تک نہیں، یا اس رپورٹ سے جو معنی اخذ ہوتے ہیں، وہ نظام شریعت میں کہاں تک نصب (fit) ہوسکتے ہیں اور کہاں تک غیر متناسب (unfit) ثابت ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی الگ الگ حیثیت رکھتی ہیں، جس طرح عدالت میں شہادتیں اور جج کا فیصلہ دونوں کی الگ الگ حیثیت ہے۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۳۵۷)

مولانا مودودیؒ اس مسئلہ کو گروہی اور مسلکی کشمکش کے بجائے خالص علمی اور تحقیقی کاوش کا موضوع بنانے کی صلاح دیتے ہیں۔اہل تحقیق کو مولانا وہ مشورہ دیتے ہیں جس سے اہل علم میں جمود ٹوٹے، تعصب کم ہو اور تحقیق کا رجحان بڑھے اور عام لوگوں کو مولانا مودودیؒ وہ مشورہ دیتے ہیں جس سے مسلکی شدت پسندی کا خاتمہ ہوجائے۔ مولانا لکھتے ہیں :

تفقہ مجتہد میں بھی خطا کا امکان ہے اور اسناد حدیث میں بھی۔ پس میرے نزدیک لازم ہے کہ ایک ذی علم آدمی مجتہدین کے اجتہادات اور احادیث کی روایات دونوں میں نظر کرکے حکم شرعی کی تحقیق کرے۔ رہے وہ لوگ جو حکم شرعی کی خود تحقیق نہیں کرسکتے تو ان کے لیے یہ بھی صحیح ہے کہ کسی عالم کے اوپر اعتماد کریں، اور یہ بھی صحیح ہے کہ جو مستند حدیث مل جائے، اس پر عمل کریں۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۳۵۷)

صدیوں سے اختلافات کی بھٹی میں دہکتے ہوئے ایسے مسئلے میں “یہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح ہے” کہنا معمولی بات نہیں ہے، لیکن حفاظت و تجدید کے سفر میں یہ کہنا ناگزیر ہے، ورنہ تحقیق طلب مسائل عوام کے درمیان مناظروں کا موضوع بن کر امت میں تفرقے اور دین کی عمارت کے انہدام کا سبب بن جاتے ہیں۔

صحابہ کرامؓ، احترام کے تقاضے اور تحقیق کے مطالبے

اگر صحابہ کرام کا احترام ملحوظ نہ رکھا جائے تو دین کی عمارت خطرے میں پڑجاتی ہے، اور اگر ان کے مختلف فیصلوں، رایوں اور موقفوں کا تحقیقی جائزہ نہ لیا جائے تو شریعت کے بہت سے اصولوں اور تعلیمات کی صحیح وضاحت نہیں ہوپاتی ہے۔ مولانا مودودی نے صحابہ کرام کے احترام کے تقاضوں اور تحقیق کے مطالبوں کو بڑی خوبی کے ساتھ جمع کیا۔ مولانا لکھتے ہیں :

میری کتاب ‘تفہیم القرآن’ موجود ہے اس میں میں نے جہاں کہیں فقہی مسائل یا دینی مسائل کے متعلق بحث کی ہےتو اس کے اندر آپ دیکھیں گے کہ میں نے صحابہ کرامؓ کے اقوال سے استدلال کیا ہے، جہاں کہیں صحابہ کرامؓ کا ذکر آیا ہے میں نے بارہا یہ بات لکھی ہے کہ روے زمین پر آفتاب نے کبھی ایسے انسان نہیں دیکھے تھے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ تھے۔ تمام نوع انسانی کا بہترین گروہ اگر کوئی تھا تو وہ صحابہ کرامؓ تھے۔ پھر میں نے بارہا یہ بات لکھی ہے کہ صحابہ کرامؓ کا جس چیز پر اجماع ہو وہ دین میں حجت ہے، اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ آدمی کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اجماع کو اسی طرح تسلیم کرے، جس طرح سنت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص ۳۱۰)

مزید لکھتے ہیں :

صحابہ کرامؓ کو برا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا ایمان بھی مشتبہ ہے۔ ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم۔(سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص ۳۱۱)

لیکن ان کے اس مقام بلند کے اعتراف کے ساتھ وہ یہ بھی لکھتے ہیں :

قرآن وحدیث نے ہمیں صحابہ کرامؓ کے احترام کے ساتھ ساتھ انھیں انسان سمجھنے کا شعور بخشا ہے اور اس کی تربیت دی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ صحابہ کرامؓ سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی تو وہ قرآن وحدیث کے خلاف ایک بات کہتا ہے۔ سوال یہ کہ جب قرآن وحدیث میں مختلف مثالوں کا ذکر کیا گیا ہے تو ایک مسلمان ان کے برعکس موقف کس طرح اختیار کرسکتا ہے اور کس طرح سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر ان سے غلطی ہوئی تو اس کا بیان کرنا گناہ ہے؟ غلطی بھی ہوئی اور اسے بیان بھی کیا گیا، حدیثوں اور تفسیروں میں بیان کیا گیا اور ائمہ کرام، محدثین اور مفسرین نے بیان کیا۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص ۳۱۱)

بزرگانِ دین قابل احترام ہیں، تنقید سے بالاتر نہیں ہیں

بزرگوں کے سلسلے میں ایک بے اعتدالی یہ ہے کہ ان کو کوئی معتبر مقام ہی نہ دیا جائے، اور دوسری بے اعتدالی یہ ہے کہ انھیں تنقید سے بالاتر خیال کیا جائے، اور اگر کوئی تنقید کرے تو اسے توہین سمجھ لیا جائے۔ امت کی موجودہ صورت حال میں یہ دونوں قسم کی بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، اور کریلا نیم چڑھا یہ کہ یہ بے اعتدالی گروہی عصبیت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔وہ اس طرح کہ بزرگوں کی تقسیم کرلی گئی ہے، اپنے بزرگوں کا پرستش کی حد تک پہنچا ہوا احترام، اور دوسروں کے بزرگوں کی بے تردد توہین و تذلیل، یہ رویہ راست دین کی عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

دین کی عمارت کی حفاظت اور دین کے احیا و تجدید کا تقاضا یہ ہے کہ بزرگوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اور ان کی خدمات کی حقیقی معنوں میں قدر کرتے ہوئے، تنقید و تحقیق کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔مولانا مودودیؒ نے یہی راستہ اختیار کیا، وہ لکھتے ہیں :

میں تمام بزرگانِ دین کا احترام کرتا ہوں، مگر پرستش ان میں سے کسی کی نہیں کرتا، اور انبیا کے سوا کسی کو معصوم بھی نہیں سمجھتا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں بزرگان سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالتا ہوں۔ جوکچھ ان میں حق پاتا ہوں اسے حق کہتا ہوں، اور جس چیز کو کتاب و سنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں پاتا اس کو صاف صاف نادرست کہہ دیتا ہوں۔ میرے نزدیک کسی غیر نبی کی رائے یا تدبیر میں خطا پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی عظمت و بزرگی میں کوئی کمی آئے۔ اس لیے میں سلف کی بعض رایوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کی بزرگی کا بھی قائل رہتا ہوں اور میرے دل میں ان کا احترام بھی بدستور باقی رہتا ہے۔(سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص۵۲۰)

بزرگان سلف کے اجتہادات اور نیا اجتہاد

تجدید اور حفاظت کا بہت بڑا مسئلہ بزرگان سلف کے اجتہاد کے تعلق سے درپیش ہوتا ہے، مولانا مودودیؒ نے اس سلسلے میں بھی وہ اصولی موقف اختیار کیا جو تجدید اور حفاظت دونوں کے تقاضوں کی بیک وقت تکمیل کرتاہے۔ مولانا لکھتے ہیں :

بزرگان سلف کے اجتہادات نہ تو اٹل قانون قرار دیے جاسکتے ہیں اور نہ سب کے سب دریا برد کردینے کے لائق ہیں، صحیح اور معتدل مسلک یہی ہے کہ ان میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے، مگر صرف بقدر ضرورت اور اس شرط کے ساتھ کہ جو ردوبدل بھی کیا جائے تو دلائل شرعیہ کی بنا پر کیا جائے۔ نیز نئی ضروریات کے لیے نیا اجتہاد بھی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اس اجتہاد کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہو اور یہ اجتہاد وہ لوگ کریں جو علم و بصیرت کے ساتھ جذبہ اتباع و اطاعت بھی رکھتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو زمانہ جدید کے رجحانات سے مغلوب ہوکر دین میں تحریفات کرنا چاہتے ہیں، تو ان کے حق اجتہاد کو تسلیم کرنے سے ہمیں قطعی انکار ہے۔(سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۴۵۸)

خواہش نفس اور نتیجہ تحقیق میں فرق ضروری ہے

حفاظت کی انتہا کو پہنچی ہوئی فکر اس کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص ایک مسلک سے دوسرے مسلک کا سفر کرے، جب کہ یہ پابندی تجدید کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ایک مسلک سے دوسرے مسلک میں منتقلی کے سلسلے میں بہت سخت موقف رکھنے والے اسے یہ کہہ کر ممنوع قرار دیتے ہیں کہ اس کا محرک خواہش نفس ہوتی ہے، جب کہ مولانا مودودیؒ کا موقف یہ ہے کہ یہ خواہش نفس کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے اور تحقیق کی بنا پر بھی، اس لیے مطلق پابندی کے بجائے محرک کی بنا پر فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں:

میرے نزدیک ایک مذہب فقہی سے دوسرے مذہب فقہی میں انتقال صرف اس صورت میں گناہ ہے جب کہ یہ فعل خواہش نفس کی بنا پر ہو نہ کہ تحقیق کی بنا پر۔(سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] اول ص۴۶۱)

خواہش نفس کے محرک اور تحقیق کے محرک میں فرق کرکے حفاظت اور تجدید دونوں کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہوجاتی ہے۔

انفرادی رائے رکھنے کی اجازت مگر احتیاط کے ساتھ

عام طو ر سے اہل علم کے درمیان بھی کسی مسئلے میں جمہور امت کے مقابلے میں تفرد اختیار کرنے اور شاذ رائے رکھنے کو جرم سمجھا جاتا ہے، یہ مزاج تحقیق کے سفر کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے۔مولانا مودودیؒ اس کے خلاف نہیں ہیں کہ آدمی آزادی کے ساتھ تحقیق کرے، اور اس صورت میں بھی اپنے نتیجہ تحقیق پر برقرار رہے جب کہ سلف میں سے کسی کی اسے تائید حاصل نہ ہو، تاہم وہ اس معاملے میں اپنی حد تک شدید احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں :

میں فقہی مسائل میں انفراد کو پسند نہیں کرتا—اگرچہ انفراد میرے نزدیک حرام نہیں ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے بہت مضبوط دلائل کی ضرورت ہے، اور کم ہی ایسا اتفاق ہوا ہے کہ کبھی میں نے فقہی مسئلے میں کوئی ایسی رائے ظاہر کی ہو جس میں سلف میں سے کوئی بھی میرے ساتھ نہ ہو۔ (سید مودودیؒ، رسائل و مسائل [تدوین نو] دوم ص۵۲۳، ۵۲۴)

حرف آخر

اس طویل گفتگو اور متعدد اقتباسات کا مقصود مولانا مودودیؒ کی مدح سرائی نہیں ہے، بلکہ امت میں اصلاح کا جذبہ رکھنے والے افراد اور تحریکات کے سامنے ایک ماڈل پیش کرنا ہے۔ امت کے اندر ایک طرف تو حفاظت کے تعلق سے بے جا اندیشوں اور غیر معتدل جذبے نے تجدید و تحقیق کے راستوں پر پہرے بٹھارکھے ہیں، اور دوسری طرف حفاظت کے مسئلے سے بے پروا تحقیق و تنقید کے عمل نے دین کی عمارت کو واقعی خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی پیچیدہ اور مشکل صورت حال میں ’’ فکرِ حفاظت کے ساتھ کار تجدید‘‘ کا منہج امت کو اس دورویہ مرکب بحران سے نکالنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔