غزل
جب سج دھج کر وہ شاہِ حسن سوئے عاشقاں نکلے
پیروں سے زمیں نکلی، سروں سے آسماں نکلے
یہ دامن تو تھام لیا نہ رکھا مجھے تنہا
جب سج دھج کر وہ شاہِ حسن سوئے عاشقاں نکلے
پیروں سے زمیں نکلی، سروں سے آسماں نکلے
یہ دامن تو تھام لیا نہ رکھا مجھے تنہا
ہر جا پہ بزمِ ارض میں قبضہ خدا کا ہے
شایاں نہیں کسی کو یہ رتبہ خدا کا ہے
ذرے کی کیا مجال جا پہنچے خورشید کو
آئینہ سچ بولتا ہے
مجھے تبھی تو اس سے نفرت ہے
آئینہ سچ دکھاتا ہے
تبھی تو اس سے ڈرتا ہوں
کہ چند باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر جھوٹ ہی جچتا ہے
چند بھید ایسے ہوتے ہیں جو ظاہر نہ ہوں تو بہتر ہے
پر تف ہے اس آئینے پر
یہ آئینہ صاف دکھاتا ہے
تبھی تو ٹوٹ جاتا ہے ـ
ناصحؔ عبد اللہ
یہ الفاظ کئی بار ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔کبھی کسی معصوم کے قتل کے بعد تو کبھی کسی معصوم کی خود کشی کے بعد اور پھر ایک زبردست تحریک اٹھتی ہے جو جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھنے والی معصوم جانوں کے لیے انصاف کا تقاضہ کرتی ہے ، معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کا عزم کرتی ہے اور پھر کچھ وقت بعد یہ تحریک کہیں گم ہو جاتی ہے۔کسی واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ذہنی دباؤ ، گھر
کسی نئے سے نقصان سے دوچار ہوئے ہیں
اس غم سے تو لاچار ہم ہر بار ہوئے ہیں
یہ ڈھیر دیکھ رہے ہو، اس کو وجہ سنو!
ہزاروں لاشیں گرنے سے یہ انبار ہویے ہیں
اے ارضِ مقدس تیرے یہ سارے مکین
اک اُمت کی بیماری سے بیمار ہوئے ہیں
مظلوم کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی
کیوں بھلا ظالم کی رُسوائی نہیں ہوتی؟
اکثر دشمنانِ دین یہ ہم سے پوچھتے ہیں
تمہارے خُدا کو کیا حیرانی نہیں ہوتی؟
مرنے والے ہیں کہ شان سے مرجاتے ہیں
کم ظرف قاتلوں کو پشیمانی نہیں ہوتی
اک اور رات جاگ لی ، اک اور دن نکل گیا
کبھی گرا کبھی اٹھا ، میں گر کے پھر سنبھل گیا
اسی کے کوزہ گر کے دستخط تھے اور وفا کا عہد
میں حیرتوں میں گِھر گیا وہ شخص جب بدل گیا
وگرنہ جذبے برف ہوتے دیر کتنی لگنی تھی
خدا کا شکر لمحہِ وصال پھر سے ٹل گیا
شاعروں کے مسائل سے واقف ہو تم
پھر بھی ضد کر رہی ہو
تم سے پہلے بھی گزری کئیں ایسی ہیں
اپنی آنکھوں میں سپنے سجائے ہوئے
بوجھ امیدوں کا دل میں اٹھائے ہوئے
خون اپنی رگوں میں جماۓ ہوئے
ان سبھی کو مری ایک ساعت میسر نہ آئی کبھی بھی ،
کسی کو بھی اک پل خوشی کا نہیں دے سکا میں ۔
دیکھنے لگ گیا زندگی کو کھلی آنکھوں سے جب
ادب ایک وسیع اور متنوع شعبہ ہے جس میں مختلف انواع، اسلوب اور تناظر شامل ہیں۔ یہاں ادب کے مختلف نقطہ نظر میں سے کچھ ہیں:
سیما نیک اور صالحہ خاتون تھی ۔ اللہ نے اسے تین پیارے پیارے بچوں سے نوازا تھا ۔ بڑی بیٹی فاطمہ اور اسکے بعد دو بیٹے سعد اور فواد تھے ۔ شوہر سرکاری ملازم تھے ۔ بڑی اچھی گذر بسر ہو رہی تھی ۔ جہاں شکر گذاری ہو ، صبر،قناعت اور سلیقہ شعاری ہو وہاں گذر بسر ہمیشہ ہی اچھی ہوتی ہے ۔ وہ اپنے ساس سسر کے ساتھ آبائی گھر میں رہتی تھی ۔
اس کے بُرجوں کی، اونچے قلعوں کی قسم
اور جس دن کا وعدہ ہے، اُس کی قسم
وہ جو محوِ تماشا ہیں اُن کی قسم
اور قسم اُن کی جن کو ستم کا تماشا بنایا گیا
آگ کی خندقوں میں گرایا گیا
وہ جو کہتے تھے