Skip to main content

گھر تو آخر اپنا ہے

Submitted by talhaoffice03@… on
Periodical
 اردو
گھر تو آخر اپنا ہے

سیما  نیک اور صالحہ خاتون تھی ۔ اللہ نے اسے تین پیارے پیارے بچوں سے نوازا تھا ۔ بڑی بیٹی فاطمہ اور اسکے بعد دو بیٹے سعد اور فواد تھے ۔ شوہر سرکاری ملازم تھے ۔ بڑی اچھی گذر بسر ہو رہی تھی ۔ جہاں شکر گذاری ہو ، صبر،قناعت اور سلیقہ شعاری ہو وہاں گذر بسر ہمیشہ ہی اچھی ہوتی ہے ۔  وہ اپنے ساس سسر کے ساتھ آبائی گھر میں رہتی تھی ۔ 

دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات اور موبائل کے بے جا استعمال نے سوسائٹی کو اخلاقی تباہی کے جس گڑھے میں پھینک دیا تھا ، وہ اس کے فتنوں سے باخبر تھی ۔ آنے والی نسلوں کے بارے فکر مند رہتی تھی ۔ کھبی ننھی فاطمہ کو دیکھتی تو گھبرا کر اسے اپنے ساتھ لپٹا لیتی ۔ کبھی سعد اور فواد کی جوانی کو نشے اور شراب کی لت پڑ جانے کا سوچ کر اندر تک لرز جاتی ۔ وہ دن رات ان کے لئے دعائیں کرتی ۔ ننھے ننھے بچے اپنی ماں کے خدشات سے بے خبر کھیل کود میں مصروف رہتے

ایک روز سیما نے اپنے خدشات اور خوف کا تذکرہ اپنی سہیلی سے کیا تو اس نے اسے قرآن وحدیث سے مدد لینے کا مشورہ دیا۔ 

بات دل کو لگی ۔ اس کی والدہ نے اسے جہیز میں تفہیم القرآن کا سیٹ دیا تھا ۔ شوہر کے پاس معارف الحدیث تھی ۔ پڑھی لکھی اور ذہین تھی ۔فورا ہی عزم صمیم باندھ لیا ۔ اپنے آپ سے عہد کر لیا کہ  تفسیر و حدیث روزانہ  پڑھوں گی ۔ اگر غفلت ہوگئی تو 500 روپے صدقہ کروں گی ۔ 

تفسیر کیا پڑھنی شروع کی بند دریچے کھلنے لگے ۔ بچوں کی تربیت کے لئے قصص القرآن بچوں کو سنانا شروع کئے ۔ بچوں کے فہم کے مطابق احادیث بھی چن چن کر سناتی۔ 

وقت گذرتا رہا ۔ اب تو سیما کو کہانیاں سنانے کا فن آگیا ۔ بچے بھی رات کے آٹھ بجتے ہی بھاگے آتے اور کہانی کا مطالبہ کرتے ۔ سیما خواہ کتنی تھکی ہوتی ، صحت خراب ہوتی اس نے کہانی سنانے کا کبھی ناغہ نہ کیا ۔

وہ بچوں کے ساتھ کبھی مدینے کی گلیوں میں گھومتی ۔،کبھی بچوں کو جنت کے تصوراتی محل دکھاتی اور کبھی  اللہ کے حضور بچوں کو  کامیابی کے سرٹیفیکیٹ  دلواتی ۔ بچوں کا تصور توحید ، آخرت ،رسول اللہ کی محبت کو خو پالش کرتی۔ 

 بچوں میں جنت کے حصول کا مقابلہ کرواتی ۔ لڑائی میں زیادتی کرنے والے بچے کو بتاتی کہ تمہاری 5 جنتیں تھیں ایک کم ہو کر دوسرے کومل گئی ہے ۔ اس کی 6 ہو گئیں اور تمہاری 4 رہ گئیں ۔ زیادتی کرنے والا بار بار معافی مانگ کر اپنی جنت واپس لینے کی کوشش کرتا اور دوسرا چوڑا ہو کر کہتا ۔" اب تو معافی نہیں " تکرار بڑھتی تو سیما سفارش کرکے جنت واپس لے دیتی

دن گذرتے رہے پتہ بھی نہ چلا تین سال بیت گئے ۔ اب فاطمہ 11سال سے اوپر ہو گئی تھی ۔ وہ پرائمری سے ثانوی کلاس میں آگئی تھی۔ اس کا تیزی سے بڑھتا قد ماں کے دل میں نئی سوچ ڈال گیا ایک دن کہانی سناتے ہوئے کہا "فاطمہ  تمہیں پتہ ہے جس طرح جنتیوں کی دو ڈو جنتیں ہوں گی ۔ اسی طرح ایک لڑکی کے دنیا میں بھی دو گھر ہوتے ہیں " ہائیں ؟ اور لڑکوں کے" ؟ سعد نے تڑپ کر سوال کیا "بھئی لڑکوں کا تو ایک ہوتا ہے " ۔۔۔"کیوں؟؟ نہیں جی میں بڑا ہو گیا تو اتنے زیادہ گھر بنا لوں گا ۔ سب دنیا سے زیادہ  اور فاطمہ کو تو گھسنے بھی نہیں دوں گا "  ارے بچو عقل کے کچو ، گھر اور مکان میں بڑا فرق ہے ۔ مکان تو بے شک زیادہ بنا لینا گھر تو ایک ہی رہے گا " وہ کیسے سعد نے حیران ہو کر پوچھا 

"دیکھو بچو مکان تو بنتا ہے اینٹ گارے سے سے جبکہ گھر بنتا ہے انسانوں سے " جب کوئی مکان خالی ہو تو اس پر لکھا جاتا ہے " مکان کرائے کے لئے خالی ہے " ا چھا !!ہاں ہاں میرے سکول کے راستے میں ایک مکان پر یہی لکھا ہے "فواد نے خبر سنائی 

"امی میرا دوسرا گھر کون سا ہے ؟فاطمہ نے معصومیت سے سوال کیا" پتہ نہیں بیٹا ، ابھی دیکھا نہیں , جس طرح ابھی جنت دیکھی نہیں "

اسی طرح ابھی آپ کا دوسرا گھر بھی نہیں دیکھا ۔ "

اب سیما نے روٹین بنا لی کہ ہفتے میں ایک مرتبہ اسے اس کے دنیا والے دوسرے گھر کی کہانی بھی سنائی جاتی ۔ "بیٹا آپ کو پتہ ہے آپ کے اس گھر میں ایک اور امی اور ابو بھی ہوں گے " اچھا ؟ "ان کا کیا نام ہے ؟"  ارے شہزادے بتایا ہے ناں ابھی نہیں پتہ " اور  ہاں فاطمہ وہاں ایک دو بہنیں اور دو تین بھائی بھی ہوں گے " اچھا پھر تو بڑا مزہ آئے گا ۔ جب سعد اور فواد میرے ساتھ لڑیں گے تو میں  بھاگ کر وہاں چلی جایا کروں گی " فاطمہ نے خوشی سے نعرہ لگایا ۔ "اتنی دور اکیلے تھوڑا جاتے ہیں ؟ میں خود چھوڑ کر آیا کروں گی " ماں نے تنبیہ کی

سیما بڑی مہارت سے فاطمہ کے دل میں شوہر کا تذکرہ کئے بغیر   گھر کے دیگر افراد سے تعلق پختہ کرتی رہتی "تمہاری اس گھر میں جو بہنیں ہوں گی ناں تم ان کے ساتھ دوستی کر لینا ۔ ان کے ہاتھوں پر پیاری پیاری مہندی لگایا کرنا۔ان کو پڑھایا کرنا ۔ اور جو تمہاری دوسری امی ہوں گی ناں تم ان کی ٹانگوں کی مالش کیا کرنا  ۔ " کبھی سکھاتی کہ میرے ساتھ کچن میں آ کر کام کیا کرو۔ مجھ سے سیکھ لو" الغرض  فاطمہ کی پڑھائی بھی جاری رہی اور گھر گرہستی کے کام بھی سیکھتی رہی ۔ اب وہ نہم کلاس میں آ گئی تھی ۔ ایک دن سکول سے آئی تو چپکے سے کچن میں آ کر کھڑی ہو گئی ۔ وہ اپنی ماں سے کچھ کہنا چاہتی تھی ۔ ماں چہرہ شناس تھی ۔بھانپ گئی ۔ پوچھا بیٹا کیا کہنا چاہتی ہو؟ "امی میری سہیلی کہتی ہے یہ جو تمہاری  امی دوسرے گھر کی کہانیاں سناتی ہے ۔ اسے سسرال کہتے ہیں ۔ " فاطمہ کہتے کہتے شرما گئی ۔ ماں نے اسے پیار کیا اور اعتراف حقیقت کر لیا ۔ اس کے بعد سیما نے بڑی بے تکلفی سے وقتا فوقتا بیٹی کو آئندہ آنے والے حالات میں اس کے کردار اور گھریلو امور کی اہمیت سمجھاتی اور سکھاتی رہی ۔ اس وقت

فاطمہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسے پتہ چلا کہ خاوند کا درجہ  دنیا کے ہر رشتے سے زیادہ مقدم ہے ۔ حتی کہ والدین سے بھی زیادہ 

 الغرض سیما بچی کی دینی اور دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی و اخلاقی تربیت بھی کرتی رہی ۔ انٹر میڈیٹ  کے دوران سیما نے بیٹی کے لئے رشتے دیکھنا شروع کر دئیے ۔ ایف ، ایس ،سی کی تو فاطمہ شاندار نمبروں سے کامیاب ہوئی ۔ آنرز کے دوران ایک اچھا رشتہ مل گیا تو سیما نے اس کی شادی کر دی ۔ تعلیم بھی جاری رہی اور گھر داری بھی ۔ ماں کے گھر گھریلو کاموں کی مہارت فاطمہ کے بہت کام آئی ۔

فاطمہ کا اصل کارنامہ تو سسرال والوں کے دل جیتنا تھا ۔ اس کی ایک ہی نند تھی جو لاڈ پیار میں کافی خودسر ہو گئی تھی ۔ فاطمہ نے بڑی لگن سے اس کو اپنے ساتھ  اٹیچ کر لیا اور غیر محسوس طریقہ سے اسے قرآن سیکھنے پر لگا لیا ۔ اس بچی کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آنا شروع ہوئی ۔ رمضان المبارک آیا تو فاطمہ نے مزے دار ڈشز بنا بنا کھلائیں ۔ سب نے روزے رکھے ۔ آخری روزہ آیا تو فاطمہ کے سب سے چھوٹے دیور نے بتایا کہ پہلی مرتبہ ہم سب نے پورے رکھے  ہیں۔ اس سے قبل تو امی ابو پورے رکھتے تھے اور باقی سب ڈنڈی مارتے تھے ۔ فاطمہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر کرنے لگ گئی ۔ اس نے نوٹ کیا کہ اسکے دیور اور نند بھی نماز باقاعدگی سے پڑھنے لگے ہیں 

فاطمہ کو اپنے گھر سے بہت محبت تھی ۔ اسے صاف ستھرا رکھنا ، اس کو ڈیکوریٹ کرنا اس کا مشغلہ تھا ۔  جب بازار جاتی کوئی نہ کوئی سینری ، گلدان ، وال کلاک لا کر لگا دیتی ۔

اللہ نے تقریبا ڈیڑھ سال بعد اسے بیٹے کی نعمت سے نوازا تو بہت خوشیاں منائی گئیں ۔ 20، 25 دن بستر پر رہنے کے بعد ایک دن ہمت کر کے اٹھی ۔ دھیرے دھیرے کچن میں گئی تو یہ دیکھ کر بہت حیران بھی ہوئی اور خوش بھی کہ اس کی نند نے کچن کو خوب چمکا رکھا تھا ہر ہر برتن اسی طرح ٹھکانے پر رکھا تھا جہاں اس نے اس برتن کی جگہ بنائی تھی ۔ وہ بڑی نفاست سے روٹیاں بنا رہی تھی ۔  اس کا ذہن اپنی ماں کی طرف چلا گیا ۔ اسے یاد آیا کہ امی اس سے کہا کرتی تھیں بیٹا نفاست اور صفائی عورت کا زیور ہے کھانا تو ہر عورت بنا لیتی ہے ۔ کس ترتیب سے کس سلیقے سے بناتی ہے یہ بات زیادہ اہم ہے "۔ اسکی ماں  نے جو چراغ جلایا تھا اس کی لو دن بدن بڑھ رہی تھی ۔ وہ دل ہی دل میں ماں کے لئے دعا کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔