Skip to main content

نظم : تنبیہ

Submitted by talhaoffice03@… on
 اردو
نظم : تنبیہ

شاعروں کے مسائل سے واقف ہو تم
پھر بھی ضد کر رہی ہو
 تم سے پہلے  بھی گزری کئیں ایسی ہیں
اپنی آنکھوں میں سپنے سجائے ہوئے
بوجھ امیدوں کا دل میں اٹھائے ہوئے 
خون اپنی رگوں میں جماۓ ہوئے
ان سبھی کو مری ایک ساعت میسر نہ آئی کبھی بھی ، 
کسی کو بھی اک پل خوشی کا نہیں دے سکا میں ۔
دیکھنے لگ گیا زندگی کو کھلی آنکھوں سے جب
ذات میری پلندوں میں 
دبتی گئی ۔
کچھ اداسی تو کچھ الجھنوں میں تو کچھ مخمصوں میں ہی بٹتی گئی ۔
زندگی منزلوں سے کہیں دور اک گول رستے پہ 
کٹتی گئی ۔
تم مرے ساتھ رہ کر کبھی بھی
مسرت کو اپنی حراست میں نہ رکھ سکو گی ۔
خواہ مخواہ اپنی رنگین شامیں اداسی
فقط وحشیانہ اداسی کے خستہ  ترازو میں کیوں تولنے پر تلی ہو ۔
بات مانو مری تم،
کہ نادانیوں کے قفس سے نکل کر بھی سوچو ذرا ۔
میرے بس میں نہیں ہے
کہ تمہیں تمہاری وضع مطابق بہت خوشنمائی میں لپٹے مناظر فراہم کروں ۔
فرض کرلو اگر ساتھ رہنے لگیں ہم ،
مجھے پاؤ گی تم کبھی دوستوفسکی کے ناول کے کردار کا روپ دھارے ہؤے۔
تو کبھی کافکا کے 
کسی خط میں غرقاب دنیا سے کٹتا ہوا پاؤ گی تم۔
کبھی مرزا غالب کے اشعار  کے کچھ عجب فلسفوں میں اترتا ہوا ۔
تو کبھی مجھ کو دیکھو گی
اک  پینٹنگ میں جو ڈونچی نے کمزور ساعت میں مجبور ہوکر بنائی کبھی ۔
تو کبھی کچھ فلسطینی بچوں کے جسموں سے بہتے ہوئے خون 
کی رائگانی  کے دکھ میں سسکتا ہوا پاؤ گی تم مجھے ۔
میرے نزدیک
یہ زندگی ماسوائے اداسی کے کچھ بھی نہیں ۔
یہ حقیقت سے کوسوں پرے
خواہشوں کے بیابان میں اک جھلستا ہوا خواب ہے ۔
مضمحل کردے دل کو یہ سیراب ہے ۔
اپنے اندر اتارے یہ گرداب ہے۔

میں جسے تم نے جاں کے  قریں  کر لیا۔
میں وہ شمع ہوں 
جو رات کے وقت بجھنے کے امکان سے بے خبر ہو کے بھی دن نکلنے سے پہلے ہی بجھ جاتی ہے ۔
میں وہ ساحل ہوں 
اب تک کسی بھی مسافر کی منزل کا رتبہ نہیں پاسکا ۔
میں وہ عاجز ہوں پیہم تشدد کی زد میں بھی جو بے صدا رہ گیا ۔
میں وہ کھڑکی ہوں جو 
آندھیوں کی بھی رت میں کھلی رہ گئی ۔

اور تم 
پھول ہو جس کو چھونے کی خواہش میں کتنے پرندے قطاروں کی زد میں ہی مریل ہوئے ۔
تم وہ کافر ہو 
جو مومنوں کے دلوں میں پنپتے عقائد کو زائل کرے ۔
تم وہ خوشبو ہو جو 
جیل خانوں میں بیٹھے ہوئے قیدیوں کو بھگوڑا کرے۔
تم وہ خواہش ہو جس کو
جوان اپنے سینوں میں لے کر اچھلتے پھریں ۔
شاعروں کے مسائل سے واقف ہو تم
پھر بھی ضد کر رہی ہو 
کہ تم سے پہلے  بھی گزری کئیں ایسی ہیں
اپنی آنکھوں میں سپنے سجائے ہوئے
بوجھ امیدوں کا دل میں اٹھائے ہوئے 
خون اپنی رگوں میں جماۓ ہوئے
لوٹ جاؤ ابھی وقت ہے ۔
مجھ میں ایسا تو کچھ بھی نہیں  جو مجھے بھولتے وقت 
دقت کا باعث بنے ۔
اس سے پہلے امیدیں تجاوز کریں اپنی حد سے کہ تم لوٹ جاؤ ابھی وقت ہے ۔

Tags