Skip to main content

اسلحہ گردی اور سرگودھا

Submitted by talhaoffice03@… on
 اردو
اسلحہ گردی

نیلسن منڈیلا کہتے ہیں کہ ”تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے آپ دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں“ مگر عرض پاک میں دنیا اپنے خیالات کے مطابق  تبدیل کرنے کے لئے تعلیم کا استعمال تو کم مگر ہتھیار (اسلحہ)کا استعمال بارہہ نظر آتا رہتا ہے۔

جب ہم اسلحہ لفظ پڑھتے ہیں تو تاثر ہی یہ جاتا ہے کہ بدمعاشی،قتل عام،چوری ڈکیتی،غنڈہ گردی مگر اسلحہ صرف اسلئے تو استعمال نہیں ہوتا اسلحہ تو نبی پاکﷺ اور اصحاب کرام کی میراث ہے مگر اسلحہ کا استعمال کس طرح ہونا چاہیے یہ ہمارے لئے جاننا بہت اہم اور ضروری ہے۔اسلحہ کے استعمال کے کافی منفی اور مثبت پہلو ہیں۔ 

پاکستان اور اسلحہ

پاکستان میں اسلحہ کا استعمال اس قدر بڑھتا جارہا ہے اور اسلحہ اس قدر عام ہوتا جارہا ہے کہ وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 44ملین اسلحہ لوگوں کے پاس موجود ہے۔جن میں سے صرف 6ملین رجسٹرڈ ہے اور ذاتی طور پر اسلحہ رکھنے والے لوگوں کی شرح 22.3 فیصد ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سو(100) افراد میں سے 23افراد کے پاس اپنا ذاتی اسلحہ موجود ہے جو بیشتر وقت انکے پاس ہوتا ہے۔

عوام الناس کا اتنی بڑی تعداد میں اپنے پاس اسلحہ رکھنا ہی ملک میں قتل عام،ڈکیتی،غنڈہ گردی کو فروغ دے رہا ہے۔

اسلحہ کیوں اور بنیادی وجہ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو نوجوان فکر معاش میں اور گھر چلانے کی زمہ داری میں وہ کام کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے جو اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے انتہائی غلط اور گناہ آمیز کام یعنی چوری،ڈکیتی ہے۔دوسری بڑی وجہ سنگت ہے۔آدمی جس طریقے کے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے انہی کی طرح ہو جاتا ہے۔جب نوجوان اپنی جوانی ہی میں ایسے افراد کے ساتھ رہن سہن کرنے لگتا ہے جو اسلحہ گردی اور عام عوام میں اپنا خوف بنانے اور خود کو ایک غنڈہ دکھانے کو ایڈونچر کی شکل دے کر کرتے ہیں تو اسے بھی یہ چیز اٹریکٹ کرتی ہے اور پھر وہ اسی گندگی میں ڈھلا چلا جاتا ہے۔

اسلحہ کا استعمال یا اسلحہ رکھنا اپنی حفاظت تک کے لئے ہو تو بلکل بجا ہے۔مگر جب انسان کے ہاتھ میں کسی قسم کی طاقت ہوتی ہے تو وہ خود کو طاقتور ثابت کرتا ہے۔اسلحہ بھی ایسی ہی طاقت ہے جو جب انسان کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو وہ اسکے استعمال سے پہلے نہ ہی اسکے بعد ہونے والے انجام کو دیکھتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسری رائے ذہن میں لاتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں اسلحہ!

 

اسی طرح اسلحہ کا استعمال تعلیمی اداروں میں کثرت سے ہوتا ہے۔جس میں طلبہ کی آپسی لڑائیاں اور طلبہ گروپس کی آپسی لڑائیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ضلع سرگودھا میں بھی تعلیمی اداروں میں اسلحہ گردی کی یہی صورتحال ہے بلکہ کچھ بدتر ہے۔ریسرچ.نیٹ کے ہومیسائڈل ڈیتھ کے recent سروے کے مطابق  سرگودھا میں ایک سال میں 82 اموات اسلحہ کے استعمال کی وجہ سے ہوئی جن میں سے زیادہ تر اموات 17-30 سال کی عمر کے لوگوں کی ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جو کسی کالج میں کسی یونیورسٹی میں کسی سکول میں زیر تعلیم ہیں مگر اسلحہ کی اس قدر عام فراہمی اور اندھے استعمال کی زد میں آئے۔انکو مارنے والے کون ہیں وہ بھی یہی طلبہ ہیں!

ضلع سرگودھا میں 2023 میں موسم گرما کی تعطیلات کے بعد جب سکول،کالجز دوبارہ کھلے تو جب کالجز اور سکولز سپورٹ گالا اور کنسرٹ کرواتے ہیں تاکہ طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔پر اس سال اور اُس ماہ سرگودھا کے کالجز اور سکولز نے صرف خون کی ہولی دیکھی ایک ماہ میں 25 سے 30 لڑکے طلبہ لڑائیوں میں جاں بحق ہوئے۔جس پر انتظامیہ نے نہ کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی وہ بات زیر بحث رہی۔اور ایسا نہیں ہے کہ ایک بھی ایک پہلی بار ہونے والا واقعہ تھا یہ گروپس ابھی بھی کالجز میں موجود ہیں اور ابھی بھی سال میں تین سے چار لڑکے طلبہ گروپس کی آپس میں لڑائی کے دوران مارے جاتے ہیں۔

کچھ دن پہلے ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال میں ایک ۹سال کا بچہ جب کمر پر بستہ لٹکائے علم کی شمع حاصل کرنے کے لئے سکول جارہا تھا تو ایسی ہی ایک لڑائی کی زد میں آیا اور ایک گولی اسے جا لگی۔یہ اسکی قسمت یا اسکے ماں باپ کی دعا جس نے اسے بچا لیا اور وہ زندہ بچ گیا۔اور یہ کوئی پہلا قصہ نہیں ایسے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں اور ہر بار ایسا واقعہ سن کر اس پر افسوس کہہ کر اسے ہمیشہ کے لئے بھول جایا جاتا ہے۔یا انتظامیہ اس پر گہری مذمت کردیتی ہے۔

طلبہ میں اسلحہ فراہم کرنے والا کون؟

پر بات سوچنے کی یہ ہے کہ یہ سب ہو کیسے رہا ہے؟طلبہ کو اسلحہ فراہم کرنے والا کون ہے؟اور یہ کھلے عام اسلحہ استعمال کیسے ہورہا ہے؟اعلیٰ حکام کہاں ہیں؟

اس کام کو ختم کیسے کیا جاسکتا ہے؟

اس کا حل!

 

اسلحہ کا استعمال روکا ضرور جاسکتا ہے۔جس کا کامیاب تجربہ اسلامی جمعیت طلبہ گجرات نے کچھ سال پہلے پولیس کے ساتھ مل کر کیا۔گجرات میں بھی طلبہ لڑائیاں بہت حد تک بڑھ گئی تھیں۔ایسے میں اسلامی جمعیت طلبہ گجرات نے اسلحہ فری موومینٹ کا آغاز کیا اور پولیس کے حکام سے ملاقات کی۔ملاقات میں ڈی ایس پی گجرات نے بہت مثبت رویہ اپنایا اور شہر کی سطح پر تمام بڑے گروپس کو دعوت پر بلایا گیا۔تمام گروپس سے حلف لئے گئے کہ طلبہ کے درمیان تعلیمی اداروں میں کوئی لڑائی(تصادم)نہیں ہوگا۔اور آپسی رنجشوں اور دشمنیوں میں معصوم طلبہ کو بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عرصہ میں طلبہ لڑائیاں نہ ہونے کے برابر ہوئیں۔یہ سب کیسے ممکن ہوا؟

یہ سب  طلبہ اور پولیس کی باہمی دلچسپی سے ہوا۔اگر پولیس اور بالائی انتظامیہ بھی ایسی دلچسپی کا اظہار کرے اور واقعی اسلحہ کے استعمال کو روکنے کے لئے پریکٹیکلی کام کرنا شروع کرے تو یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں کہ پولیس طلبہ کو نہ روک سکے۔

اسلحہ صرف سرگودھا کا مقامی مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں اسلحے کا استعمال ایک بہت بڑا اور شر انگیز مسئلہ ہے۔اور تعلیمی اداروں میں اسلحہ کا استعمال اس کا تاریک ترین چہرہ ہے۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔