Skip to main content

امام حسن البنّا شہیدؒ

Submitted by talhaoffice03@… on
Periodical
Urdu
امام

قادر مطلق نے محفلِ ارض و سما کو سجایا ۔ اس میں آدم خاکی کی تخلیق کی اور اسے اختیارات دے دیے کہ حسبِ مرضی جیسے چاہے اپنے لمحاتِ زندگی گذارے۔وجودِ انساں سے لیکر آج تک کروڑوں انسان درِ گور ہوچکے ہیں۔افراد کی اس بھیڑ میںکچھ ایسی بھی شخصیات گذری ہیںجن کے افعالِ صالحہ سے آج بھی اوراقِ تاریخی منور ہیں۔ان کے اعمال ،طرزِ حیات،اجتہاد ان کو دیگر افراد سے منفرد مقام عنایت کرتا ہے۔ان میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جنھوں نے باعثِ صلاحیت صحرائے تاریک کو بھی نورِ ہدایت سے آفرینشِ گل کردیا ،خاطرِ خدا وند اپنے چہروں کی ابتسام کو بھی ترک کردیا۔قوم کو بیدار کرنے کی غرض سے راہِ پرُ خار پرقدم رکھ دیا۔
انہی شخصیات میں سے ایک صالح شخصیت ، ازبرائے خدا سب کچھ وقف کرنے کے لیے ہردم کوشاں ،ہستیِ پر افتخار ، امام حسن البنّا شہید ؓ ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حسن البنّا نے بمرضی ِ خدا اکتوبر ۱۹۰۶ ؁ کو اس ارضِ فانی میں آنکھیں کھولی ۔ ان کی جائے پیدائش وجائے پناہ محمودیہ ہے جو سرِدست مصر کے نام سے شہرت یافتہ ہے۔آپ کی ابتدائی تعلیم والدِ محترم کے زیرِ نگرانی ہوئی،پھر مدرسہ تحفیظ القران میں داخل ہوئے جہاں روشن مستقبل آپ کا منتظر تھا ۔ ابتدائی لمحاتِ زندگی سے ہی آپ کے ذہانت کے آثار عیاں تھے اور شاید تابناک مستقبل کے گواہ بھی۔ کم سنی میں تخلیقِ ارض و سما اور طلوعِ آفتاب سے متعلق سوالات ،آپ کے منفرد ہونے کا ثبوت تھے ۔آپ ہمیشہ کہتے زندگی ایک نمایاں کتاب ہے جس کی تفسیرہے قران ۔دائرہ تعلیم کو وسعت دینے کے اس درانیے میں آپ دیگر اطفال کے مشابہ کھیل کود کو ترجیح نہ دیتے بلکہ اپنا وقت اصلاحِ معاشرہ و فروغِ اخلاق کے کاموں میں گذارتے۔اسکولی تعلیم کے بعد عشاء تک والد سے گھڑی سازی کا ہنر سیکھتے، عشاء سے لیکر سونے تک وہ اسکول کے اسباق ذہن نشین کرتے پھر بعد از فجر حفظِ قرن کا فعل انجام دیتے۔اسکول میں قائم جمیعتِ اخلاقِ ادبیہ کے صدر کی حیثیت سے بھی آپ نے فرائض انجام دئیے جو طلبہ کی اصلاح کے افعال انجام دیتی تھی۔
کم سنی میںہی کچھ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے جن سے ان کی خدا ترسی ظاہر ہوتی ہے۔محلے کی مساجد میں نمازیوں کی تعداد متاثر ہوتی تھی یہ صورتِ حال دیکھ کرحسن البنّا قبلِ فجر اٹھتے اور محلے کے ہر گھر پر دستک دیتے اس طرح کم سن کی ان مشقتوں کو دیکھ کر لوگوں کا ضمیر جواب دے گیا اور مساجد میں نمازیوں کی تعداد خراماں خراماں بڑھنے لگی ۔حسن البنّا دینی و عصری علوم میں بخوبی دلچسپی رکھتے تھے ،ٹیچرزٹریننگ اسکول سے عصری تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ نے اپنے اسکول میں اول اور پورے مصر میں پانچواں مقام حاصل کیا ۔
؁ُٰٗٗؔؓؓ۱۹۲۳؁ میں آپ نے قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اس زمانے میں قاہرہ اپنی دینی و اسلامی شناخت کھوتا جارہا تھا گویا یہ ابتذال کی شروعات تھی اس طرح مغربی تہذیب کا سیلاب اخلاقی قدروں کے لیے موت کا پیغام بن کر آیا تھا ۔حسن البنّا نے اپنی وسیع النظری سے اسے بھانپ لیا او ر سارے آسائش ِ برگ و ساز ترک کرتے ہوے از برائے خدا ان اجل رسیدہ افراد کے حق میں کوششیں کرنے لگے۔احباب کے احتباس و انکار کے باوجود آپ نے مسجدوں کے بر عکس قہوہ خانوں کو وعظ کے لئے ترجیح دی،یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا۔اس طرح ابتذال کی طرف کوچ کررہے معاشرہ نے اپنا رخ تبدیل کر دیا۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
ایک دفعہ جب حسن البنّا قہوہ خانے میں وعظ دے رہے تھے تو اپنی بات لوگوں کے ضمیر تک پہچانے کے لیے کوئلے جو انگاروں کی مانند شباب پر تھے لوگوں کی طرف پھینک دیے اور سامعین کی اضطرابی حالت کو دیکھتے ہوے کہا کہ جب ہم ان حقیر شعلوں کی گرماہٹ برداشت نہیں کرسکتے تو نار جہنم کے استبداد کا مقابلہ کس قدر کر سکیں گے۔آپ کی باتیں لوگوں کے دلوں پر گھر کر گئی،اس طرح چھ مزدور پیشہ با ہمت افراد کے ساتھ مارچ۱۹۲۸؁ میںآپ نے شرقِ اوسط کا نقشہ بدل دینے والی تحریک ـ اخوان المسلمون کی بنیاد ڈالی۔ان کی اس تنظیم کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوے لیکن صبر ،ضبطِ نفس اور اچھے کردار جیسے ہتھیاروں سے لیس حسن البنّا نے چومکھی لڑائی لڑی۔
حسن البنا نے صرف اصلاحی جماعت نہیں بنائی بلکہ بچوں کے تربیتی مراکز ،مدارس اور تعلیم بالغان کے لیے اقدامات بھی کیے ،اقتصادی میدان میں مختلف کمپنیاں کھلوائی ،مساجد واسپتال قائم کیے ،اسلام کے حرکی و کلی پیغام کے لیے آپ نے سات ہزار سے زائد مصری شہروں اور دیہاتوں کا سفر کیا۔جوں جوں اخوان المسلمون بجانبِ عروج بڑھتی گئی آپ کی قربانیاں بھی بڑھتی گئی،اسی تنظیم کی خاطر آپ نے ۱۹ سالہ استادگی کو بھی ترک کر دیا۔آپ کا سب سے بڑا بین لاقوامی اقدام جہادِ فلسطین میں شرکت کا فیصلہ تھا ۔۱۹۴۸؁ کے جہادِ فلسطین میں مصر کے اخوانی مجاہدوں نے اسرائیل کے پیروں تلے زمین کھسکادی۔جہاں عظیم دستوں کے قدم لرزتے تھے وہاں اخوان تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے پہنچے اور کشتوں کے پشتے لگا دیے ۔
آپ اربابِ قلم کی فہرست میں بھی شانہ بشانہ رہے ،پیشہ ورانہ و تحریکی مصروفیات کے با وجود آپ نے ایک بیش بہا تحریری ذخیرہ اپنے رسائل و مقائل کی شکل میں چھوڑا ہے۔جن میں مجاہد کی اذاں نامی رسالہ اردو ترجمہ کی صورت میں دستیاب ہے۔قران آپ کی تحریروں کا خصوصی موضوع رہا ،اکثر آپ اپنے رسائل و جرائد میں قرانی آیا ت کی تفسیر کرتے یہ تفسیری خزینے ضخیم جلدوں کی صورت میں موجود ہے۔آپ کا مشہور ترین قول ہے کہ
” وہ امت جو جینے کا عزم کر لے اسکے مٹنے کا کیا سوال۔۔۔! اس سے تو موت بھی دور بھاگتی ہے۔”
جہادِ فلسطین میں اخوانی مجاہدین کے کارناموں نے حکومت کی نیند اڑادی ،آزمائشوں کی چکی حرکت میں آگئی اور اخوان تحتِ جبر چورچور ہوتے چلے گئے۔جیل کی سلاخیں ہو یا آزمائشِ تختہ دار اخوان اور ان کے اس عظیم قائد نے اپنے ایمان اور عزم کے نا قابلِ تسخیر ہونے کا ثبوتِ بہم دیا۔
اسی اثنائے استبداد میں ۱۲فروری۱۹۴۹؁ کو قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر آپ کو دھوکے سے بلایا گیا،آپ کا جسم سات گولیوں کی تاب نا لا سکا اور آپ جامِ شہادت پی گئے۔اس موقع پر بھی آپ کے چہرے پر کسی قسم کے آثارِ حزن موجود نہ تھے گویا اک نمایاں ابتسام ظاہر تھی رب سے ملاقات کی۔۔۔۔۴۳ برس کی عمر میں آپ حیاتِ جاودانی پاگئے۔مطلق العنانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بوڑھے باپ کے علاوہ کسی کو آخری ملاقات کا شرف تک حاصل نہ ہوا۔
قبائے نور سے سجھ کر لہو سے با وضو ہو کر
وہ پہنچے بارگاہِ حق میں کتنے سرخ رو ہو کر
ہوا یہ کہ ایک عظیم قائد کا عزم و حوصلہ پوری تحریک میں سرایت کر گیااور باطل کی آہنی سلاخیں اخوان کی آہنی عزائم سے ٹکرا کر پسپا ہو گئی۔۔۔۔۔۔
میں آخر میںبارگاہِ دوجہاں میں سجدہ ریز ہ ہوں کہ باری تعالیٰ آپ کو فردوسِ بریں میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور جس کاروانِ صداقت کو آپ نے بطورِ میراث چھوڑا ہے اسے منزلِ مقصود عطا کرے۔ آمین۔۔۔