Skip to main content

رسول اللہ ﷺ سے محبت کی بنیادیں

Submitted by talhaoffice03@… on
Periodical
Urdu
رسول اللہ ﷺ سے محبت کی بنیادیں

قرآن میں رسول اللہ ﷺ کا اور آپ کے مشنِ رسالت کاجس طرح سے تعارف پیش کیا گیا ہے وہی رسول اللہ ﷺسے ہمارے تعلق کی بنیاد ہونا چاہیے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں قرآن کی پیش کردہ ان بنیادوں کے بجائے خود ساختہ بنیادیں اختیارکی گئیں جس کی وجہ سے ہم ان مقاصد سے دور ہوتے چلے گئے ہیں جو رسالت کے مقاصد ہیں ۔قرآن میں رسول اللہ ﷺکے مقاصدِ بعثت کو بہت واضح طورمختلف مقامات پر پیش کیا گیا ہے۔ان مقاصدکو سمجھنے کے بعد ہی رسول اللہ ﷺسے ہماری محبت حقیقی بنیادوں پر قائم ہوگی اور ایسی محبت ہمیں ان مقاصدسے جوڑے رکھے گی جن کے ساتھ خاتم النبیین کو مبعوث کیا گیا ۔جب تک امتِ مسلمہ کی نظر ان مقاصدِ بعثت پر رہی وہ دنیا کے امام اور قائد رہے اور جب سے رسول اللہ ﷺسے محبت کی بنیادیں بدل گئیں تو مسلمانوں کے زوال کا آغاز ہوااور ابھی تک وہ روبہ زوال ہی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں پرجو عظیم الشان احسانات فرمائے ہیں اس میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی ہدایت کے لیے ایسا رسول مبعوث فرمایا ہے جس کی زندگی میں تاقیامت ساری انسانیت کے لیے ہر قسم کے حالات میں مکمل ہدایت کے لیے عملی نمونہ موجود ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ (سورۃآل عمران ۱۶۴) ۔درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور اُن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
اس آیت میں نبوت کے تین اہم مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔ (۱) تلاوتِ آ یات (۲) نفوس کا تزکیہ (۳) کتاب و حکمت کی تعلیم ۔ اس آیت میں رسول اللہ ﷺکی رسالت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے انسانیت پر احسان کو بیان فرمایا جارہا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رسول تمہارے اندر بھیجا ہے جو اللہ کے پیغام کواس کے اصلی کلام کی صورت میں پڑھ کر سنا تا ہے۔لوگوں کی زندگیوں میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں ان کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے۔ تزکیہ سے مراد عقائد اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہے۔ آپؐ نےلوگوں کے قلوب کو کفروشرک سے پاک کرکے ان کے اندر توحید کا عقیدہ پیداکیا ۔ان کے اندر آخرت میں جواب دہی کا احساس پیداکرکے ان کے اندر تقویٰ کی صفت کو پیدا فرمایا ۔اوراخلاق واعمال میں اصلاح کے ذریعے تہذیب وتمدن سے عاری ایک غافل قوم کو اخلاق و کردار کی رفعتوں پر پہنچادیا۔ کتاب و حکمت کی تعلیم دینے سے مراد ہے کتاب (قرآن) کے اندر جو حکمت و دانائی کا سمندر ہے اس سے اہل ایمان کو روشناس کروایا ہے۔اسی مضمون کو سورۃ الجمعہ آیت ۳ میں دہرایا گیا ۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں اتنا تنوع رکھا گیا ہے کہ ہر چند سالوں کے بعد ایک نیا منظر رونما ہوتا ہے۔مکی دورِ نبوّت میں خاموش دعوت کا دوربھی ہے ،علی الاعلان دعوت بھی ہے،استہزاءاور اذیت کے مقابلے میں صبر کی درخشاں مثالیں بھی ہیں ، شعبِ ابی طالب کی گھاٹی میں محصورہونا بھی ہے،طائف کا سفر بھی ہے،ہجرت بھی ہے،دفاعی اور اقدامی جہاد وقتال بھی ہے،صلح بھی ہے،دلوں کو فتح کرنے والی فتح مکہ بھی ہے،دین ِ اسلام میں فوج درفوج داخلہ بھی ہےاور روم جیسی وقت کی سوپر پاورکی جانب پیش قدمی بھی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے رسولوں اور انبیاء کی حیات ہائے طیبات کی تلخیص کو ایک سیرت میں سمودیا گیا ہے۔قیامت تک آنے والے تمام حالات میں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں کامل نمونہ موجودہے۔دورِ نبوت کا بنیادی مقصد جو تمام پچھلے انبیاء کا قدرِ مشترک ہے اس کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا : رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ۔ یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھےتاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجّت باقی نہ رہےاور اللہ بہر حال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔سورۃ النساء۱۶۵۔
یہ اللہ کی حکمت ہے کہ وہ پردہ غیب میں رہ کررسولوں کے ذریعے اپنے پیغام کو اپنے بندوں کے پاس بھیج کر حجت قائم کرتا ہے تاکہ لوگ یوم آخرت میں یہ عذر پیش نہ کرسکیں کہ ان کو خبردارکیے بغیرجہنم میں ڈالا جارہا ہے ۔دنیا میں بھی پچھلی قوموں پر عذاب اسی صورت میں آیا جب رسولوں کو بھیج کر ان پر حجت تمام نہ کردی گئی ہو (سورۃ بنی اسرائیل ۱۵)۔
چنانچہ رسول اکرم ﷺکے بنیادی مقصدِ بعثت کو اس طرح پیش کیا گیا:يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ۔اے نبیؐ ،ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کراللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینےوالا بنا کر اور روشن چراغ بناکر۔(سورۃ الاحزاب ۴۵، ۴۶)
اس آیت میں رسول اللہ ﷺکی رسالت کے اہم امور کو پیش کیا جارہا ہے۔آپ ﷺان لوگوں کے لیے مبشر ہیں جو آپ کی رسالت کو تسلیم کرکے اللہ کی بندگی کو اختیارکرتے ہیں ۔آپ ان لوگوں کو ڈراتے ہیں جو دنیاوی زندگی کے مزوں میں پڑ کر غفلت کاشکارہیں یا سرکشی کا رویہ اختیارکیے ہوئے ہیں ۔اور رسول کا مستقل کام یہ ہے کہ وہ اللہ کا تعارف لوگوں میں پیش کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دیتا ہے اور اپنی زندگی کے بہترین نمونہ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ رسول کی زندگی سے لوگ سبق لیں ۔رسول کی کامل زندگی ہر شخص اور ہر موقع کے لیے سورج کی طرح ایک روشن چراغ بن جاتی ہے۔جس طرح بینائی بیرونی روشنی کے بغیر کام نہیں کرتی، بالکل اسی طرح قرآنی احکام اور ان کا عملی نمونہ (سنتِّ رسول) موجود نہ ہو تو انسانیت تاریکیوں ہی میں بھٹکتی رہے گی ۔ اسی لیے نبی کریمؐ کے اسوہ کو سِرَاجًا مُّنِيْرًا روشن چراغ کہا گیا ۔
تمام رسول دنیا میں بشر بناکر بھیجے گئے تھے ۔نبیؐ کے بشر اور انسانوں میں سے ہونے کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسان کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس لیے کہ رسول اپنی قوم کی زبان میں اللہ کا پیغام پہنچاتا ہے جسے سمجھنا قوم کے ہرفرد کے لیے آسان ہوجائے۔ اگر فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجا جاتا تو انسانوں کو یہ عذرمل جاتا کہ یہ شریعت تو فرشتوں کے لیے قابل عمل ہے نہ کہ انسانوں کے لیے۔انسانوں کے لیے بشر کی پیروی ممکن ہے لیکن فرشتوں کی پیروی آسان نہیں ہوتی اس لیے کہ فرشتے انسانوں کی فطری کمزوریوں اور ان کے شعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک نہیں کرسکتے ۔اس لیے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ بہترطریقے سے انجام نہیں دے سکتے تھے ۔اس لیے جتنے بھی انبیاء علیہم السلام آئے ہیں سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے، مثلا فرمایا: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْہِمْ۔اے محمد ؐ ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے۔ (سورۃ یوسف۱۰۹)
وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ۔ اے محمدؐ ، تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔ (سورۃ الفرقان ۲۰)
رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی اس حقیقت کا اعلان آپ کی زبان سے کروایا گیا کہ آپ خاتم النبیین ہونے کے ساتھ بشر تھے لیکن آپ ساری کائنات میں افضل البشر اس لیے ہیں کہ آپ پر وحی کا نزول ہواتھا : قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ۔ اے محمدؐ ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔(سورۃ الکھف ۱۱۰) سورۃ حٰم السجدہ ۶میں بھی یہی اعلان دہرایاگیا ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن نے رسول اللہ ﷺ کی بشریت کے بارے میں اتنی وضاحت کرنے کے بعد بھی امت کے کچھ افراد اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور بشریت کی نفی کرنے کے لیے یہ بات مشہورکردی گئی کہ رسول اللہﷺ نورِ مجسم ہیں اور ان کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔اگر ایسی بات ہوتی تو اس کا ذکر معجزہ کے طورپر ہوتا جس کو دیکھ کر مشرکین مکہ ایمان لے آتے اور ایمان نہ لانے کی صورت میں مکہ والوں پر ایسا ہی عذاب آتا جس طرح پچھلی قوموں پر عذاب اس وقت آیا تھا جب انہوں نے معجزہ کو بھی جھٹلایا تھا ۔یہ عجیب بات ہے کہ جب رسول دنیا میں موجود ہوتا ہے تو منکرین رسالت اس بناپر رسول کا انکارکرتے ہیں کہ وہ بشر تھا اور جب رسول دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کے ماننے والے غلو کا شکار ہوکر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ رسول تھے اس لیے وہ بشر نہیں ہوسکتے ۔رسول اللہ ﷺ کی عظمت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ بشر ہوتے ہوئے رسالت کا عظیم الشان فریضہ منفرد شان کے ساتھ انجام دیا کہ قیامت تک کے لیے آپ ہر حیثیت میں ماڈل ہیں ۔آپ یتیم پیداہوئے لیکن حالات سے لڑتے ہوئے فاتح بن کر ایک عظیم عادل حکم راں کانمونہ دنیا کے سامنے پیش فرمایا ۔آپ نے بادشاہ ہوکر بھی فقروفاقہ کیا تاکہ ایک مفلس آدمی بھی آپ کی زندگی میں اپنے لیے نمونہ پائے۔آپ نے شوہر ، باپ ،داعی ،معلم ، مظلوم ،محصور،مہاجر ،مجاہد،مزکی ، مصلح اور صلح جو اور فاتحِ اعظم کے مختلف رول میں دنیا کے سامنے اپنے بہترین اسوۂ کو پیش فرمایا ۔
قرآنی آیات سےیہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ تمام پیغمبروں کا ایک ہی مشن اورمقصدِ بعثت تھا۔مقصدکے اعتبارسے رسولوں میں کوئی فرق نہیں ہے(سورۃ البقرۃ ۲۸۵) لیکن فضیلت کے اعتبارسے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو الگ الگ مقام عطافرمایا ہے(سورۃ بنی اسرائیل ۵۵)۔
رسول اللہ ﷺچونکہ نبی آخرالزماں اور خاتم النبیین ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے دین وشریعت کانہ صرف اتمام فرمایا (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا۔ سورۃالمائدہ۳) بلکہ آپ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں اس دین کو غالب کرکے دنیا کو دکھلادیا کہ دین اسلام جب غالب ہوتا ہے توایک نظام ِعدل وقسط کس طرح ظہورمیں آتا ہے:هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ۔وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(سورۃ الصف۹)
اس آیت میں رسول کا حتمی مقصدبیان کیاجارہا ہےکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ہاتھوں دینِ اسلام کو سارے ادیان پر غالب کردے۔دین کے غلبہ سے مراد دو چیزیں ہیں : ایک ہے فکری غلبہ اور دوسرا ہے سیاسی غلبہ ۔جہاں تک فکری غلبہ کی بات ہے یہ غلبہ جزیرہ نمائے میں رسول اللہ ﷺکی زندگی میں پورا ہوچکا اور شرک کا اس علاقہ میں مکمل خاتمہ ہوچکا ۔فکری انقلاب کے ذریعے توحیدکی حقانیت کو قیامت تک کے لیے دلائل سے ثابت کردیا گیا اور شرک کی بنیادوں کو ختم کردیا گیا ۔اور رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام کی ایسی جماعت تیارکی جو اس بات کے لیے کافی تھی کہ وہ ساری دنیا میں حق کو فکری اور سیاسی دونوں محاذوں پر غالب کردے ۔لیکن ملوکیت کے فتنوں نے اسلام کو چند ملکوں تک محدود کردیا ۔
رسول اللہ ﷺ کے مقصدِ بعثت کو اور رسول اللہ سے اہل ایمان کے تعلق کی بنیادوں کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا : الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۔جو اِس پیغمبرنبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔(سورۃ الاعراف ۱۵۷)
اس آیت کے دو حصے ہیں ۔پہلے حصے میں رسالت مآب ﷺ کے نمایاں کارِ رسالت کا ذکر ہےجیسے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا اور شریعت ِ الہیہ کے بے جا بوجھ کو ہلکا کرنا ۔پچھلی امتوں نے شریعت کو مسخ کرکے خرافات و بدعات سے بوجھل بنا دیا گیا تھا۔ آپ نے شریعت کو اس پر لادے ہوئے بوجھ سے آزاد کرکے انسانوں کے لیے قابلِ عمل بنانا ۔دوسرے حصے میں یہ بیان کیا گیا کہ جو بھی رسول اکرم ﷺ سے اپنی نسبت ومحبت کا دعوے دار ہے اس نسبت ومحبت کی بنیادیں کیا ہونی چاہئیں؟رسول اللہ ﷺسے تعلق و محبت کی جو بنیادیں اس آیت میں بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں : آپ کی رسالت پر ختمِ نبوت و بشریت کے ساتھ ایمان لانا ۔آپ کی حمایت و نصرت کرنا اور اس نور(قرآن) کی اتباع کرنا جو آپ پرنازل کیا گیا ۔ صحابہ کرام کی رسول اللہ ﷺسے یہی حقیقی محبت تھی جو ان کو ساری انسانیت کا داعی بناکر دوردراز مقامات تک لے گئی اور ان کی بدولت اسلام کی روشنی سے دنیا منور ہوئی ۔
اس دورمیں رسول اللہ ﷺ کی حمایت و نصرت سے کیا مراد ہے جب کہ آپ ہمارے درمیان میں موجود نہیں ہیں؟اس سے مراد یہ ہے کہ کارِ رسالت کےضمن میں جو فرائض قرآن میں بیان کیے گئے ہیں ان کو امت ِ مسلمہ اپنا مقصدِ وجودبنالے۔دعوت الی اللہ ،امربالمعروف ونہی عن المنکر اور دین کو اپنی انفرادی زندگیوں میں قائم کرنااور جو مسلم ممالک ہیں وہاں دین وشریعت کو نافذکرنا ،ظلم کے خلاف جدوجہدکرنا۔ یہ وہ امور ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے حقیقی تعلق کے تقاضے ہیں ۔یہی حقیقت میں رسول کی حمایت و نصرت ہے۔یہی رسول اللہ ﷺ سے حقیقی محبت کی بنیادیں ہیں ۔حبِّ رسول یہ نہیں ہے کہ محبت کے نام پر بدعات و خرافات کو رائج کریں ۔رسول ﷺ تو آئے تھے بدعات وخرافات سے شریعت کو پاک کرنے کے لیے۔ حبِّ رسول کا عین تقاضا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حقیقی تصویر کو انسانیت کے سامنے پیش کریں تاکہ دنیا والوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ رحمت للمسلمین نہیں بلکہ وہ رحمت اللعٰلمین بنا کر دنیا میں بھیجے گئے ہیں ۔
سورۃ التوبہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں جو تعریف فرمائی ہے اس میں رسول سے محبت کی ایسی بنیاد بتلائی گئی ہے جس سے امت کے ایک ایک فرد کے دل میں حقیقی حبِّ رسول راسخ ہوجائے گا۔
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔سورۃ التوبہ ۱۲۸)
یعنی رسول اکرم ﷺ انسانیت کے حق میں بے انتہاخیرخواہ ہیں۔ہمارے پیارے رسول ہمارے اتنے خیرخواہ ہیں جتنا ہم خوداپنے لیے اتنے خیرخواہ نہیں ہیں ۔وہ ہماری فلاح کے اتنے حریص ہیں جتنے ہم خود اپنے بارے میں اتنے حریص نہیں ہیں ۔ ہمارا جہنم میں جانے کا تصور ان کے لیے اتنا شاق ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے اتنے فکر مند نہیں ہیں۔ اللہ نے آپ سے خطاب کرکے فرمایا کہ کیا تم اپنے آپ کو ہلاک کرڈالو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے (سورۃ الکھف ۶)۔اپنی امت کے لیے وہ اتنے شفیق اور رحیم ہیں کہ امت کی نجات کے لیے وہ اللہ تعالیٰ سے فریادرس ہوتے ہیں ۔یہ ہے رسول اللہ سے محبت کی بنیاد کہ جس کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد اور والدین سے بڑھ کر محبوب نہ بن جاؤں۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت کی بنیادوں کو کچھ لوگ فراموش کرکے اس بنا پر آپ سے محبت کرتے ہیں کہ وہ ان کی بگڑی بنانے والے ہیں یا ان کی جھولی بھرنے والے ہیں۔جبکہ اللہ نے اپنے رسولؐ کی زبان سے یہ کہلوایا کہ : قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ۔اے محمدؐ ، ان سے کہو کہ ”میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سُنانے والا ہوں اُن لوگوں کےلیے جو میری بات مانیں۔“(سورۃ الاعراف ۱۸۸)
رسول اللہ ﷺ سے محبت کی یہ خود ساختہ بنیادیں غلط عقائد پر مبنی ہیں ۔آپ سے حقیقی محبت کی بنیاد آپ کی لائی ہوئی شریعت کی اطاعت اور آپ کے مشنِ رسالت کو اختیارکرنا ہے۔