یہ بات مبہم ہے، لیکن حقیقت ہے کہ ہماری 75 سالہ معاشی تاریخ بہر حال "جنگی معیشت" کی تاریخ رہی ہے۔ آغاز سے ہی کوریائی جنگ میں امریکہ زدگی ہو یا کشمیر ۔ افغانستان میں شمولیت, ریاست اور اسکی اشرافیہ نے ڈالر سے فائدہ خوب اٹھایا ہے البتہ اب معاملہ یہ ہے کہ جنگوں سے دنیا کو چلانے والے امریکہ کا اپنا حال بےحال ہے۔
آئینہ سچ بولتا ہے مجھے تبھی تو اس سے نفرت ہے آئینہ سچ دکھاتا ہے تبھی تو اس سے ڈرتا ہوں کہ چند باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر جھوٹ ہی جچتا ہے چند بھید ایسے ہوتے ہیں جو ظاہر نہ ہوں تو بہتر ہے پر تف ہے اس آئینے پر یہ آئینہ صاف دکھاتا ہے تبھی تو ٹوٹ جاتا ہے ـ
اقوام متحدہ کے قیام(24 اکتوبر 1945)کے بعد سے جنرل اسمبلی نے قضیہ فلسطین و اسرائیل سے متعلق متعدد قراردادیں منظور کی ہیں، تاہم بحیثیت مجموعی یہ قراردادیں فلسطین کو آزادی دلوانے میں ناکام رہیں نیز اسرائیل کو فلسطینی زمینوں کو ہڑپنے اور اہلِ فلسطین پر مظالم اور بدترین انسانی حقوق کی پامالی سے غاصب ریاست کو باز رکھنے میں اب تک بے ثمر ثابت ہوئی ہیں۔ اس تحریر میں چند اہم ترین قراردادوں کا اجمالی تذکرہ مقصود ہے۔
ہر زمانے میں دین کے احیا و تجدید کا کام جاری رہے، علما و فقہا کی تحقیقات و اجتہادات کا جائزہ لیا جاتا رہے، دین کی تعبیر و تشریح سے متعلق انسانی کاوشوں میں درآئی غلطیوں کی نشان دہی ہوتی رہے، زمان و مکان کے سیاق کے زیرِ اثر احکام و مسائل اور آرا و نظریات کو زمان و مکان کے بدلتے سیاق پر بار بار پیش کیا جاتا رہے، نئے احوال اور جدید انسان کی ضرورتوں کے مطابق کتاب و سنت کی روشنی میں نیا اجتہاد کیا جائے، یہ سب از حد ضروری ہے۔ اتنا ہی ضروری جتنا ایک انسان کے لیے تازہ ہوا میں تنفس ضروری ہوتا ہے۔
اردو داں حلقے کے لیے جغرافیائی سیاسیات کا موضوع ابھی نیا ہے۔ دنیا میں ہونے والی سیاسی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے علم کی اس شاخ، اس کی اصطلاحات، اور اس کے انطباقات سے واقفیت یقینا مفید ہے۔ زیر نظر مضمون میں جغرافیائی سیاسیات کے زاویے سے ایشیا و یوروپ میں رونما ہونے والی تازہ ترین تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ ادارہ)
اللہ رب العزت نے انسانوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔البتہ اس کی فطرت میں ایسی خامیاں بھی رکھی ہیں جن پر توجہ نہ دی جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو انسان اپنے مقام انسانیت سے نیچے گرکر جانوروں کے زمر ے میں آجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ انسان کو ضعیف اور کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔اس طبعی ضعف اور کمزوری کی وجہ سے وہ جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ روحانی یا باطنی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ا
قادر مطلق نے محفلِ ارض و سما کو سجایا ۔ اس میں آدم خاکی کی تخلیق کی اور اسے اختیارات دے دیے کہ حسبِ مرضی جیسے چاہے اپنے لمحاتِ زندگی گذارے۔وجودِ انساں سے لیکر آج تک کروڑوں انسان درِ گور ہوچکے ہیں۔افراد کی اس بھیڑ میںکچھ ایسی بھی شخصیات گذری ہیںجن کے افعالِ صالحہ سے آج بھی اوراقِ تاریخی منور ہیں۔ان کے اعمال ،طرزِ حیات،اجتہاد ان کو دیگر افراد سے منفرد مقام عنایت کرتا ہے۔ان میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جنھوں نے باعثِ صلاحیت صحرائے تاریک کو بھی نورِ ہدایت سے آفرینشِ گل کردیا ،خاطرِ خدا وند اپنے چہروں کی ابتسام کو بھی ترک کردیا۔قوم کو بیدار کرنے کی غرض سے راہِ پرُ
یہ الفاظ کئی بار ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔کبھی کسی معصوم کے قتل کے بعد تو کبھی کسی معصوم کی خود کشی کے بعد اور پھر ایک زبردست تحریک اٹھتی ہے جو جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھنے والی معصوم جانوں کے لیے انصاف کا تقاضہ کرتی ہے ، معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کا عزم کرتی ہے اور پھر کچھ وقت بعد یہ تحریک کہیں گم ہو جاتی ہے۔کسی واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ذہنی دباؤ ، گھریلو تشدد اور نجانے ایسے کتنے ہی عنوانات پر بحث اور خیال آرائی شروع ہوجاتی ہے، بعض دفعہ قتل کی سزا یا خودکشی کے حرام ہونے پر گفتگو زور پکڑتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کہاں ہے ؟