بنگلہ دیش کا عوامی انقلاب اور طلبہ
ماضی کی تحریکوں کی طرح، اس بار بھی طلبا صف اول میں تھے، مگر اس بار خاص بات یہ ہے کہ لڑکیاں اور خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہوئیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اس بار لڑائی سوشل میڈیا پر بھی لڑی گئی۔ جب زیادہ تر ٹی وی چینلز حکومت کے کنٹرول میں تھے اور آن لائن پلیٹ فارموں پر دباؤ تھا، طلبہ نے فیس بک، ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا کو اپنی تحریک اور نظریاتی لڑائی کے لیے استعمال کیا۔ وہاں احتجاج پھیل گیا، عزیزوں کی جدائی کا دکھ، پولیس کی فائرنگ کی ویڈیوز۔ پس منظر میں آزادی کے جنگ کے گانے اور وطن پرستی کے گانے گونج رہے تھے۔ نئے نعرے اور دیواروں پر انقلابی جملے بھی سامنے آرہے تھے۔ اس بار کی عوامی تحریک کی قیادت ’جنریشن زیڈ‘ نے کی۔ معلوماتی ٹیکنالوجی (Informative Technology)میں ماہر، اس نسل نے اپنی لڑائی اپنے انداز میں لڑی ہے۔ انہیں روکنے کے لیے بار بار انٹرنیٹ بند کیا گیا، لیکن ’بہار‘ کو روکا نہیں جا سکا۔ پھولوں کی کلی آ چکی ہے، اور اسے خوشبو دار پھول بنانے کی ذمہ داری ملک کے تمام طلبہ پر ہے۔ مختلف سازشیں اور بدعنوانیوں کی منصوبہ بندی جاری رہے گی۔ ان سب کو عبور کرکے، مستقبل کے بنگلہ دیش کی تعمیر کا فرض انقلاب سے بھی زیادہ مشکل ہے۔