دنیا کے ہر گوشے میں ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو اسلامی خطوط پر معاشرے کی تعمیرِ نو اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشش کررہی ہیں۔ ایسی کوششوں کو ’’تحریکِ اسلامی‘‘ کہا جاتا ہے ۔۔۔
دنیا کے ہر گوشے میں ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو اسلامی خطوط پر معاشرے کی تعمیرِ نو اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشش کررہی ہیں۔ ایسی کوششوں کو ’’تحریکِ اسلامی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسلمان دنیا، تحریکِ اسلامی سے بڑی حد تک واقف ہے اور اب غیر مسلم دنیا اور عالمی ذرائعِ ابلاغ بھی اس تحریک سے واقف ہورہے ہیں گرچہ وہ اس کے بارے میں متعدد غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے بارے میں متعدد سوالات مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے جاتے ہیں جن کا تعلق تحریک کے مقصد اور طریقِ کار سے ہے۔ چند سوالات کا جائزہ پیشِ نظر ہے:
حاکمیتِ الٰہ کا تصور
تحریکِ اسلامی کے بارے میں ایک سوال یہ ہے کہ اس نے اپنے اساسی پیغام میں حاکمیتِ الٰہ کو نمایاں اور مرکزی مقام کیوں دیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل مناسب ہوگا کہ ’’حاکمیتِ الٰہ‘‘ کی اصطلاح کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔ اس اصطلا ح کا مفہوم دستورِ جماعت اسلامی ہند میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’۔۔۔بنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ، محمد رسول اللہ ہے۔ یعنی الٰہ صرف اللہ ہی ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس عقیدے کے پہلے جز یعنی اللہ تعالیٰ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہی اللہ ہم سب انسانوں کا معبود برحق اور حاکمِ تشریعی ہے، جو ہمارا اور اس پوری کائنات کا خالق، پروردگار، مدبر، مالک اور حاکمِ تکوینی ہے۔ پرستش کا مستحق اور حقیقی مطاع صرف وہی ہے اور ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔
اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ انسان ۔۔۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مالک الملک اور مقتدرِ اعلیٰ نہ سمجھے، کسی کو بہ اختیار خود حکم دینے اور منع کرنے کا مجاز تسلیم نہ کرے، کسی کو مستقل بالذات شارع اور قانون ساز نہ مانے اور ان تمام اطاعتوں کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کردے جو ایک اللہ کی اطاعت اور اس کے قانون کے تحت نہ ہوں۔ کیوں کہ اپنے ملک کا ایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی کو فی الواقع مالکیت اور حاکمیت کا حق ہی نہیں پہنچتا۔
نیز اس عقیدے کو قبول کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان ۔۔۔
اپنے لیے اخلاق میں، برتاؤ میں، معاشرت اور تمدن میں، معیشت اور سیاست میں، غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت کو ہدایت مانے اور صرف اسی ضابطے کو ضابطہ تسلیم کرے، جو اللہ کا مقرر کردہ ہو، یا اس کے احکام و ہدایات کے تحت ہو، اور جو اس کے خلاف ہو، اسے رَد کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی کو اصل حجت، سند اور مرجع قرار دے۔ جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو، اسے اختیار کرے اور جو اُن کے خلاف ہو اسے ترک کردے۔‘
مندرجہ بالا تصور حاکمیتِ الٰہ، قرآن مجید سے اخذ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ذیل کی آیات پر غور کیا جاسکتا ہے:
’’کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی، اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۰۷)
’’فیصلے کا اختیار کسی کو نہیں ہے سوائے اللہ کے۔‘‘ (الانعام: ۵۷)
’’تمہارے درمیان جو اختلاف بھی ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔‘‘ (شوریٰ : ۱۰)
۴) ’’حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، یہی صحیح دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (یوسف: ۴۰)
۵) ’’پیروی کرو اس ہدایت کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، تمہارے رب کی طرف سے۔ اور اسے چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘ (الاعراف: ۳)
قرآن مجید کی ان صریح تعلیمات کی روشنی میں معقول موقف وہی ہے جو تحریکِ اسلامی نے اختیار کیا ہے، یعنی یہ کہ حاکمیتِ الٰہ کو دینی نظامِ تصورات میں مرکزی اور نمایاں مقام دیا جائے۔
اسلامی حکومت
اسلامی تحریک کے سلسلے میں بعض افراد کا تردّد یہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کا قیام چاہتی ہے۔ سوال پیش کیا جاتا ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کو مقصود اور ضروری قرار دینے کی کیا دلیل ہے؟ اس سلسلے میں ذیل کی آیات پر غور کرنا چاہیے
:
ہم نے یہ کتاب تمہاری طرف حق کے ساتھ نازل کی ہے جو تصدیق کرتی ہے پہلی آئی ہوئی کتابوں کی اور نگہبان ہے اُن پر۔ پس جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے تم اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلے کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی میں اس حق سے منہ نہ موڑو جو تمہارے پاس آیا ہے۔‘‘ (المائدۃ :۴۸)
ظاہر ہے کہ کتابِ الٰہی کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے اقتدار درکار ہے۔
۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں۔‘‘ (النساء: ۵۹)
یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے کچھ اولی الامر ہونے چاہئیں اور مسلمانوں کو ان کی اطاعت کرنی چاہیے۔ بالفاظِ دیگر، مسلمانوں کو اجتماعی نظم کے تحت زندگی گزارنی چاہیے۔ یہی نظامِ سمع و طاعت اپنی وسیع شکل میں اسلامی حکومت کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
’ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگو ں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ دیکھے کہ کون اس کو دیکھے بغیر، اس کی اور اس کے رسولوں کی مددکرتا ہے۔ یقیناًاللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔‘‘ (حدید: ۲۵)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’یہاں لوہے سے مراد، سیاسی اور جنگی طاقت ہے اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیامِ عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس (قیامِ عدل کی اسکیم) کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہوسکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جاسکے۔‘‘
(ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی)
جناب شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیربیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جو آسمانی کتاب سے راہِ راست پر نہ آئیں اور انصاف کی ترازو کو دنیا میں سیدھا نہ رکھیں، ضرورت پڑے گی کہ ان کی گوشمالی کی جائے اور ظالم و کج رو معاندین پر اللہ و رسول کے احکام کا وقار و اقتدار قائم رکھا جائے۔‘
علانیہ جدوجہد
بعض لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ تحریکِ اسلامی علانیہ جدوجہد کیوں کرتی ہے اور خفیہ طریقے استعمال کرکے، سرعت کے ساتھ انقلاب کیوں نہیں لے آتی؟ اس سوال کا مدلل جواب سید مودودیؒ نے دیا ہے:
’’خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختارِ کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک اُن ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ اُن سے اختلاف کرنے والوں کو فوراً ختم کردیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہارِ بے اطمینانی، سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اَب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسرِ اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔۔۔
میرا مشورہ یہی ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا اعلانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔‘‘ (تصریحات)
سید مودودیؒ اس ضمن میں مزید کہتے ہیں
’’جب تک ہمت اور جرأت اور عزم و استقلال کے ساتھ برسرزمین (Openly)کام نہیں کیا جائے گا،اسلامی ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ زیرِ زمین (Under Ground)کام کے نتیجے میں اسلامی ریاست نہیں بن سکتی۔۔۔
درحقیقت جب تک برسرِ زمین کام کرکے عام لوگوں کے خیالات کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، اُن کو پوری طرح ہم خیال نہیں بنایا جائے گا اور معاشرے کو اسلامی نظام کے لیے تیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اسلامی ریاست کے قیام کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً)
لاقانونیت سے اجتناب
سطورِ بالا میں عرض کیا گیا تھا کہ بعض دوستوں کو علانیہ جدوجہد پر اعتراض ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی تیز رفتار خفیہ طریقہ اختیار کرکے جلد انقلاب لے آیا جائے اور علانیہ طریقوں پر اصرار نہ کیا جائے۔ اس کے بالکل برعکس بعض حلقوں کو یہ بدگمانی ہے کہ اسلامی تحریک تخریبی طریقے اختیار کرتی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ بدگمانی بالکل بے بنیاد ہے۔ اسلامی تحریک کا اصولی موقف یہ ہے کہ فساد فی الارض سے بچا جائے۔ طریقِ کار کے ذیل میں جماعت
’’جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع یا طریقے استعمال نہ کرے گی، جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض رونما ہو۔۔۔
وہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کرے گی اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے رائے عامہ کی تربیت کرے گی۔‘‘
لاقانونیت سے اجتناب کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے جناب صدرالدین اصلاحی لکھتے ہی
’’موجودہ نظامِ (باطل) کو اصولی اور اعتقادی طور پر غلط، فاسد اور قابلِ رد قرار دینے کے باوجود، جہاں تک ۔۔۔ عام قوانین ملکی کا تعلق ہے، تحریکِ اسلامی اس بات کو صحیح نہیں سمجھتی کہ عملاً بھی اُن کو رد کردیا جائے۔ چنانچہ اس بارے میں اُس کی ہدایت یہ ہے کہ ان قوانین کو اصلاً غلط اور باطل سمجھنے کے باوجود، عملی پابندی ان کی ضرور کی جائے؟ الاَّ یہ کہ بالفرض کوئی قانون ہی ایسا ہو جس کی پیروی سے شریعت کی کھلی ہوئی خلاف ورزی، اور اللہ و رسول کی راست نافرمانی لازم آتی ہو۔ عام ملکی قوانین کی عملی پابندی کا یہ مسلک، اُس نے کسی مصلحت یا سیاسی ضرورت کی بنا پر اختیار نہیں کیا ہے، بلکہ خود اسوہ انبیاء ہی کی روشنی میں اختیار کیا ہے۔
اس اسوے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی غلط نظام بھی جب تک قائم اور نافذ ہو، اس وقت تک اس کے عام قوانین کی عملی پابندی سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اصول اس واقعیت پسندی پر مبنی ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی بہرحال کوئی نہ کوئی ضابطہ اور قانون چاہتی ہے۔ اس کے بغیر وہ قائم ہی نہیں رہ سکتی۔ اب اگر وقت کے کارفرما قوانین کی پابندی ترک کردی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ زندگی یا تو جامد ہوکر رہ جائے گی یا پھر اس میں نظم و ضبط باقی نہ رہ جائے گا۔
پہلی صورت عملاً ناممکن ہے اور دوسری سرتاسر انتشار، انارکی(Anarchy)اور فتنہ و فساد کے ہم معنی ہے، اس لیے وہ بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔۔۔ غلط سے غلط اور بد سے بدتر قوانین وضوابط کی حکمرانی بھی انسانی زندگی کے عمومی مصالح کے لیے انارکی اور لاقانونیت سے بہرحال کم تر درجے کی مصیبت ہے۔ اس لیے شریعتِ اسلامی کا نقطۂ نظر، اس باب میں بجا طور پر یہ ہے کہ ایک زیادہ سخت اور تباہ کن مصیبت سے بچنے کے لیے کسی باطل، نظامِ غالب کے قوانین کی پابندی کی نسبتاً چھوٹی مصیبت کو لازماً گوارا کیا جائے۔‘‘ (تحریکِ اسلامی ہند، باب ۸)
اس اقتباس سے واضح ہے کہ لاقانونیت سے اجتناب، اسلامی تحریک کا ایک لازمی وصف ہے۔ اس بنا پر تخریبی طریقے اختیار کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
قیامِ خلافت
بعض دوستوں کا اعتراض یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے ’’اسلامی حکومت‘‘ کے قیام کو اپنی منزل کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ اسے ’’احیائے خلافت‘‘ کو اپنا مقصود قرار دینا چاہیے تھا۔
اس اعتراض کے سلسلے میں تین حقیقتیں پیش نظر رہنی چاہئیں
(الف) پہلی حقیقت
یہ ہے کہ اصولی طور پر اقامتِ دین کا کام کسی جغرافیائی خطے میں محدود نہیں ہے۔ اقامتِ دین کی اصطلاح میں لفظ دین کا مفہوم دستور جماعت اسلامی ہند میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’لفظ دین سے مراد وہ دینِ حق ہے، جسے اللہ رب العالمین، اپنے تمام انبیاء کے ذریعے مختلف زمانوں اور ملکوں میں بھیجتا رہا ہے اور جسے آخری اور مکمل صورت میں تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نازل فرمایا اور جو اب دنیا میں ایک ہی مستند، محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے اور جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔‘‘
اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین عالم گیر ہے، چنانچہ اس کے قیام کا فریضہ بھی تمام دنیا کے مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے۔ البتہ دنیا اس وقت مختلف حکومتوں کے زیرِ انتظام علاقوں میں تقسیم ہے، اس لیے ان مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے لیے فی الحال یہ ممکن نہیں ہے کہ کارِ اقامتِ دین کے لیے وہ ایک مشترک تنظیمی ہیئت بناسکیں۔ لامحالہ اس صورتحال میں یہ ضروری ہوگا کہ ہر ملک میں، وہاں کے حالات کے پیشِ نظر، مناسب تنظیمی ہیئت، اقامتِ دین کے مقصد کے لیے بنائی جائے۔ اس سے دین یا کارِ اقامتِ دین کی عالم گیری کی نفی نہیں ہوتی۔
(ب) دوسری حقیقت
جو پیشِ نظر رہنی چاہیے یہ ہے کہ اقامتِ دین کا مثالی نمونہ، خلافت راشدہ کا نمونہ ہے۔ چنانچہ اقامتِ دین کی عملی سرگرمیوں کے کسی ایک خطے یا ملک میں محدود ہونے کے باوجود، اس مثالی نمونے (Ideal)کو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رکھا جائے گا۔ دستورِ جماعت اسلامی ہند میں کہا گیا ہے:
’’اس دین کی اقامت کا مثالی اور بہترین عملی نمونہ وہ ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے قائم فرمایا۔‘‘
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں
’’خلافتِ راشدہ کا دور۔۔۔ ایک روشنی کا مینار تھا، جس کی طرف بعد کے ادوار میں فقہاء و محدثین اور عام دیندار مسلمان ہمیشہ دیکھتے رہے اور اسی کو اسلام کے مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور اجتماعی نظام کے معاملے میں معیار سمجھتے رہے۔‘‘ (خلافت و ملوکیت)
(ج) تیسری حقیقت
جو سامنے رہنی چاہیے، یہ ہے کہ کسی ایک ملک میں اسلامی حکومت کا قیام، ایک مرحلہ ہے جو عالمی خلافت کے احیاء کی جانب سفر کے دوران پیش آئے گا۔ چنانچہ کسی ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کو آخری منزل سمجھنا درست نہ ہوگا۔ ملکی سطح کی اسلامی حکومتوں کے قیام کے بعد وہ مرحلہ آئے گا جہاں عالمی خلافت کا انعقاد ممکن ہوسکے گا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں
’’(اسلامی ریاست) ایک ایسی ریاست ہے جو رنگ، نسل، زبان یا جغرافیہ کی عصبیتوں کے بجائے صرف اصول کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ زمین کے ہر گوشے میں نسلِ انسانی کے جو افراد بھی چاہیں، ان اصولوں کو قبول کرسکتے ہیں اور کسی امتیاز و تعصب کے بغیر، بالکل مساوی حقوق کے ساتھ اس نظام میں شامل ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی ان اصولوں پر کوئی حکومت قائم ہوگی وہ لازماً اسلامی حکومت ہی ہوگی خواہ وہ افریقہ میں ہو یا امریکہ میں،یوروپ میں ہو یا ایشیا میں اور اس کے چلانے والے خواہ گورے ہوں یا کالے یا زرد۔ اس نوعیت کی خالص اصولی ریاست کے لیے ایک عالمی ریاست بن جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر زمین کے مختلف حصوں میں بہت سی ریاستیں بھی اس نوعیت کی ہوں، تو وہ سب کی سب یکساں اسلامی ریاستیں ہوں گی، کسی قوم پرستانہ کشمکش کے بجائے، ان کے درمیان پورا پورا برادرانہ تعاون ممکن ہوگا اور کسی وقت بھی وہ متفق ہوکر اپنا ایک عالم گیر وفاق قائم کرسکیں گی۔‘‘
فوجی انقلاب
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں تحریک اسلامی کو ملکی فوج کی مدد سے انقلاب برپا کرنا چاہیے۔ لیکن ان احباب کی یہ تجویز قلتِ فکر پر مبنی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فوج یا اس کے بعض عناصر کے ذریعے جو انقلاب لایا جائے گا وہ دیرپا ثابت نہ ہوگا۔ دوسری حقیقت جو پیشِ نظر رہنی چاہیے یہ ہے کہ ملک کے سیاسی عمل میں فوج کا سرگرم رول خود ایک منفی مظہر ہے، جس نے مسلم ممالک میں پورے نظامِ حکومت کو کمزوری اور انتشار میں مبتلا کردیا ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں
’’مسلمان ملکوں کے لیے ان کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ ان کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا، بلکہ اب اُن کا کام یہ ہے کہ اپنے ہی ملک کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے اُن کو مدافعت کے لیے دئیے تھے انہی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنالیں۔ اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے، انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہورہے ہیں۔‘‘ (تفہیمات، حصہ سوم)
مندرجہ بالا صورتِ واقعہ کے پیشِ نظر، مسلمان ممالک کے باشعور و مخلص عناصر کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ فوج کے رول کو دوبارہ اس کے اصل کارِ منصبی تک (جو ملک کا دفاع ہے) محدود کردیا جائے اور فوج، ملک کے سیاسی نظام کو چلانے کی یا اس میں مداخلت کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس معقول رویے کے بجائے اگر یہ کوشش کی جائے گی کہ فوج کی مدد سے کوئی مصنوعی انقلاب برپا کردیا جائے تو ایسی کوشش ناعاقبت اندیشانہ ثابت ہوگی اور پورے سیاسی ڈھانچے کے اندر خلل و انتشار کا باعث بنے گی۔ پھر اس ذریعے سے اگر بظاہر انقلاب آ بھی گیا تو وہ مستحکم نہ ہوگا اور ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہے گا کہ کوئی جوابی فوجی انقلاب اس کا خاتمہ کردے۔ اسلامی تحریک کو ایسے مخدوش طریقِ کار سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کہتے ہیں
’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحہ کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں اُن کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پائیدار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما بھی ہوجائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اُسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔‘‘ (ایضاً)
اسلامی تحریک کے لیے ضروری ہے کہ امور و معاملات کے ہر پہلو پر نگاہ رکھے، شر سے بچتے ہوئے خیر کے حصول کی کوشش کرے، بصیرت سے کام لے کر پیش قدمی کے راستے نکالے جو اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں اور شریعتِ الٰہی کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کو گوارا نہ کرے۔
جمہوریت
بعض احباب نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اسلامی تحریک نے جمہوریت کی تائید شروع کردی ہے جبکہ جمہوریت ایک غیر اسلامی نظریہ ہے۔ اس سلسلے میں جناب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ۱۹۶۸ء میں ایک سوال پوچھا گیا تھا۔ سوال یہ تھا:
’’اسلامی مفکرین نے موجودہ صدی میں ۔۔۔ متعدد مغربی اصطلاحیں استعمال کی ہیں مثلاً ڈیموکریسی، نیشنلزم، وطنیت، پارلیمنٹ، دستور، سوشلزم وغیرہ۔۔۔ بعض اسلامی مفکرین ان اصطلاحوں کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔۔۔ کیا آپ اپنے تجربات کی روشنی میں بتاسکتے ہیں کہ آئندہ۔۔۔ ایسے اسلامی مفکرین پیدا ہوں گے جو ہر اس چیز کو کلیتاً رَد کردیں گے جو قرآن و سنت سے خارج ہوگی۔‘‘ (تصریحات)
مولانا مودودیؒ نے اس سوال کے جواب میں کہا
’’موجودہ زمانے کے لوگوں کو (اپنی) بات سمجھانے کے لیے جدید اصطلاحات کا استعمال تو ناگزیر ہے، لیکن ان کے استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ بعض اصطلاحوں سے پرہیز اولیٰ ہے، بلکہ اجتناب و اجب ہے مثلاً ’’اشتراکیت‘‘۔ بعض کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اُن کے اسلامی مفہوم اور مغربی مفہوم کا فرق پوری طرح واضح کردیا جائے مثلاً جمہوریت یا دستوریت یا پارلیمنٹری سسٹم۔ بعض (اصطلاحات) کو سرے سے کوئی اسلامی مفہوم دیا ہی نہیں جاسکتا مثلاً ’’نیشنلرم۔‘‘ (ایضاً)
ایک سال بعد ۱۹۶۹ء میں مولانا مودودیؒ سے اسی موضوع سے متعلق ایک اور مجلس میں سوال پوچھا گیا جو یہ تھا:
’’مولانا! جب اسلامی جمہوریت کی اصطلاح بولی جاتی ہے تو اسے درست قرار دیا جاتا ہے۔ کیا اس طرح اسلامی سوشلزم کی اصطلاح بھی درست نہیں ہوسکتی؟‘‘ (۵۔اے ذیلدار پارک)
جناب سید مودودیؒ نے اس سوال کے جواب میں کہا
’’جمہوریت سے مراد وہ سیاسی نظام ہے جس میں حکومت عوام کی مرضی سے بنے، عوام کی مرضی سے قائم رہے اور عوام کی مرضی سے تبدیل ہوسکے۔ اب جمہوریت کا ایک مغربی تصور ہے اور دوسرا اسلامی تصور ہے۔
مغربی تصور یہ ہے کہ اس میں اقتدارِ اعلیٰ کے مالک عوام ہوتے ہیں۔ ہر قسم کی قانون سازی میں آخری فیصلہ کن حیثیت عوام کی مرضی کو حاصل ہوتی ہے۔ عوام کی اکثریت حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرسکتی ہے۔
اس کے برعکس اسلامی جمہوریت یہ ہے کہ حکومت تو اس میں بھی عوام کی مرضی سے بنتی ہے، عوام ہی کی مرضی سے قائم رہتی ہے اور انہی کی مرضی سے تبدیل ہوسکتی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ جمہوریت کے اسلامی تصور کے مطابق، اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور مسلمانوں کو قانون سازی کا اختیار صرف شریعتِ اسلامی کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہے۔ ان حدود سے باہر جاکر وہ کوئی قانون نہیں بناسکتے۔ وہ سارے کے سارے مل کر بھی خدا کے کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرسکتے۔ ان معنوں میں مغرب کی مطلق العنان اور بے قید جمہوریت کے مقابلے میں یہ ایک حدود آشنا جمہوریت ہے اور اسی مناسبت سے اس کے لیے اسلامی جمہوریت کی اصطلاح استعمال کرنا درست ہے۔ گویا اگر Sovereignty(اقتدارِ اعلیٰ) کے مغربی تصور کو اقتدارِ اعلیٰ کے اسلامی تصور سے بدل دیا جائے تو تمام مفاسد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
اس کے برعکس اسلامی سوشلزم کی اصطلاح اس لیے غلط ہے کہ سوشلزم محض کسی سیاسی نظام کا نام نہیں ہے بلکہ سوشلزم ایکIdeology(نظریۂ زندگی) ہے اور اپنے ہمہ گیر سیاسی اور اجتماعی پروگرام کی وجہ سے ایک ایسے نظام کی حیثیت رکھتا ہے جس کا کوئی جز اس کے کل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک علیحدہ مذہب ہے۔ اس کا تصورِ انسان اور تصورِ کائنات اسلام کے تصورِ انسان و کائنات سے یکسر مختلف اور متصادم ہے۔ اس کی تعبیرِ تاریخ سراسر مادّی ہے اور اس میں روحانیت اور مذہب کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لحاظ سے اس کے ساتھ لفظ اسلامی کا اضافہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اسلامی عیسائیت یا اسلامی بودھ ازم وغیرہ کہہ کر انھیں مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ (ایضاً)
خلافتِ راشدہ کے بارے میں سید مودودیؒ نے لکھا ہے کہ اس میں روحِ جمہوریت پائی جاتی تھی۔ فرماتے ہیں
’’اس خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہارِ رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفاء ہر وقت اپنی قوم کی دسترس میں تھے۔ وہ خود اپنے اہلِ شوریٰ کے درمیان بیٹھتے اور مباحث میں حصہ لیتے تھے۔ ان کی کوئی سرکاری پارٹی نہ تھی، نہ اُن کے خلاف کسی پارٹی کا کوئی وجود تھا۔ آزادانہ فضا میں ہر شریکِ مجلس اپنے ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیتا تھا۔ تمام معاملات اہلِ حل و عقد کے سامنے بے کم وکاست رکھ دئیے جاتے اور کچھ چھپا کر نہ رکھا جاتا۔ فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے تھے نہ کہ کسی کے رعب و اثر، یا کسی کے مفاد کی پاسداری یا کسی جتھہ بندی کی بنیاد پر۔
پھر یہ خلفاء اپنی قوم کا سامنا صرف شوریٰ کے واسطے ہی سے نہ کرتے تھے، بلکہ ہر روز پانچ مرتبہ نمازِ باجماعت میں، ہر ہفتے جمعہ کے اجتماع میں، ہر سال عیدین اور حج کے اجتماعات میں اُن کو قوم سے اور قوم کو اُن سے سابقہ پیش آتا تھا۔ ان کے گھر عوام کے درمیان تھے اور کسی حاجب و دربان کے بغیر ان کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ وہ بازاروں میں کسی محافظ دستے، کسی ہٹو بچو کے اہتمام کے بغیر، عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان تمام مواقع پر ہر شخص کو انھیں ٹوکنے، ان پر تنقید کرنے اور ان سے محاسبہ کرنے کی کھلی آزادی تھی۔ اس آزادی کے استعمال کی وہ محض اجازت ہی نہ دیتے تھے، بلکہ اس کی ہمت افزائی کرتے تھے۔‘‘
(خلافت و ملوکیت)
ان تصریحات سے درجِ ذیل امور واضح ہوتے ہیں
۔ اسلامی تحریک حاکمیتِ الٰہ کی علمبردار ہے اور دیگر تمام حاکمیتوں کو رد کرتی ہے جن میں حاکمیتِ جمہور بھی شامل ہے۔
۔ اسلامی تحریک اس اصول کی تائید کرتی ہے کہ شریعتِ الٰہی کے نفاذ کے لیے جو حکومت تشکیل پائے اس میں عوام کو حکمرانوں پر تنقید اور ان کے احتساب کی پوری آزادی حاصل رہنی چاہیے۔
اس مزاج کی بنا پر اسلامی تحریک ایک طرف تو جمہوری حاکمیت کے بجائے اللہ کی حاکمیت کی طرف انسانوں کو دعوت دیتی ہے اور دوسری طرف وہ یہ بھی ضروری سمجھتی ہے کہ عوام کا حق تنقید و احتساب جس حد تک کسی ملک کے نظام میں موجود ہو، وہ باقی رہے اور اس میں اضمحلال نہ آنے پائے۔ حاکمیتِ جمہور کی تردید اور طرزِ حکمرانی کی اچھی قدروں کی (جنھیں آج کل جمہوری قدریں کہا جاتا ہے) تائید، میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی حکومت میں حکمراں کون ہوں گے تو اس کا اصولی جواب ’’امرہم شوریٰ بینہم‘‘ کی ہدایت میں موجود ہے (یعنی مسلمان اپنے معاملات باہم مشورے سے چلاتے ہیں)
اس اصول کے عملی انطباق کی تشریح کرتے ہوئے سید مودودی لکھتے ہیں
’’آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانشینی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، لیکن مسلم معاشرے کے لوگوں نے خود یہ جان لیا کہ اسلام ایک شوروی خلافت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے وہاں نہ کسی خاندانی بادشاہی کی بنا ڈالی گئی، نہ کوئی شخص طاقت استعمال کرکے برسرِ اقتدار آیا، نہ کسی نے خلافت حاصل کرنے کے لیے خود کوئی دوڑ دھوپ یا برائے نام بھی اس کے لیے کوئی کوشش کی،بلکہ یکے بعد دیگرے چار اصحاب کو لوگ اپنی آزاد مرضی سے خلیفہ بتاتے چلے گئے۔ اس خلافت کو امت نے خلافتِ راشدہ (راست رو خلافت) قرار دیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں خلافت کا صحیح طرز یہی ہے۔‘‘ (ایضاً)
خلافتِ راشدہ میں رائج اس طرزِ عمل کی روشنی میں اسلامی مزاج کیا تقاضا کرتا ہے اس کو سید مودودی نے اس طرح بیان کیا ہے
’’خلافت کے متعلق خلفائے راشدین اور اصحابِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا متفق علیہ تصور یہ تھا کہ یہ ایک انتخابی منصب ہے جسے مسلمانوں کے باہمی مشورے اور ان کی آزادانہ رضا مندی سے قائم ہونا چاہیے۔‘‘ (ایضاً)
درجِ بالا اسلامی مزاج کا تقاضا یہ ہے کہ حکمرانوں کے انتخاب کے سلسلے میں مشورے اور عوام کی آزادانہ رضا مندی پر مبنی، معقول طریقے سے دنیا کو متعارف کرایا جائے۔ دنیا میں جو جمہوریت اس وقت رائج ہے، اس میں عوام کی آزادانہ رضا مندی کے حصول کا تو کچھ اہتمام کیا جاتا ہے لیکن حکمرانوں کے انتخاب میں مشورے کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ مزید برآں باہم متصادم پارٹیوں کی موجودگی، پارٹیوں کا اصولوں کے بجائے مفادات کا علمبردار ہونا، امیدواری کا طریقہ اور امیدواروں کے لیے کنویسنگ، موجودہ جمہوریت کے ایسے عناصر ہیں جو عوام کو صالح فضا میں باہم مشورے کا موقع نہیں دیتے۔ مشورے کے بجائے طاقتور طبقات اور گروہ اپنے پسند کے افراد کو پروپیگنڈے اور وسائل کی طاقت کے ذریعے عوام پر مسلط کردیتے ہیں۔ ان حالات میں عوام کی جو رائے حاصل کی جاتی ہے، وہ ان کی آزادانہ رضا مندی کا مظہر نہیں کہی جاسکتی۔
اس پس منظر میں اسلامی تحریک کے نقطہ نظر کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے
بنیادی اصلاح جو مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ حاکمیتِ جمہور کے بجائے، حاکمیتِ الٰہ کو تسلیم کیا جائے۔
اخلاقی حدود کے اندر عوام کو تنقید و احتساب کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
پارٹی سسٹم اور امیدواری پر مبنی موجودہ جمہوری طریقوں کے بجائے ایسے طریقے سوچے جانے چاہئیں جہاں حکمرانوں کے انتخاب کے سلسلے میں عوام کو آزادانہ مشورے کا موقع مل سکے۔
حکمراں بہر صورت وہی لوگ ہونے چاہئیں جنھیں عوام کی آزادانہ رضا مندی سے حکمراں بنایا گیا ہو۔
بادشاہی اور آمریت کے مقابلے میں دنیا میں جو جمہوری نظام موجود ہیں اُن کی اصولی اور عملی خرابیوں سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔ ان خرابیوں کے باوجود عوام کی آزادانہ رضا مندی کے اصول کو یہ جمہوری نظام تسلیم کرتے ہیں۔ یہ معقولیت، جو موجود ہے، تائید اور قدر دانی کی مستحق ہے۔
اگر کسی ملک میں یہ کوشش کی جارہی ہو کہ عوام کی آزادانہ رضا مندی کے حصول پر مبنی جمہوری طرزِ انتخاب کو ختم کردیا جائے یا اسے کمزور اور بے اثربنادیا جائے، تو ایسی ناروا کوشش کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔
اگر تنقید و احتساب کی آزادی جیسی جمہوری قدروں اور فطری انسانی حقوق کو ختم کرنے یا مضمحل کرنے کی کوشش کی جارہی ہو تو ایسی منفی کوششوں کی بھی مزاحمت کی جانی چاہیے۔
اسلامی تحریک کا مندرجہ بالا نقطۂ نظر حقیقت پسندی اور اعتدال پر مبنی ہے۔ جتنی کچھ صالحیت اور معقولیت موجودہ دنیا کے طرزِ عمل میں موجود ہے اس کی قدر کی جانی چاہیے اور اسے باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ افکار و تصورات، نظریات و اقدار اور عملی طریقوں میں جس تبدیلی اور اصلاح کی ضرورت ہے اس کی مسلسل نشاندہی بھی ضروری ہے۔
کیا غلبۂ دین کی جدوجہد انتہاپسندی ہے؟
تحریکات اسلامی میں ایک نیا رجحان پروان چڑھتا ہوا نظر آرہا ہے، وہ یہ کہ تحریکات کی بنیادی فکر غلبہ وتسلط کی دعوت ہے، اور یہ تصور تکثیری سماج میں مختلف مذہبی اکائیوں کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے میں ایک انتہاپسندانہ تصور ہے۔ مذہبی اکائیوں کے ساتھ مذہب کے انکاری حتی کہ ہم جنس پرستوں اور تیسری جنسی برادری کو بھی باعزت جینے کا حق ہے۔ کشمکش، تصادم، غلبۂ دین وغیرہ کی تعبیرات کے بجائے بقائے باہمی اور تعاون وتناصر پر مبنی نظریے کی بازیافت وقت کی ضرورت ہے۔ سیاسی تصورِ اسلام منہدم کرکے مذہبی اختلافات کو امرِواقعہ تسلیم کرکے ان کے درمیان مشترک اقدار کی تلاش اور ان کی بنیاد پر تعمیرِ سماج کی بات ہونی چاہئے۔
یہ رجحان تفصیلی جائزہ چاہتا ہے۔ سردست اتنی بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ’’مقدس خواہش‘‘ ہوسکتی ہے جس کا تعلق نہ حقائق سے ہے، اور نہ قرآن وسنت سے اس تصور کی تائید ہوتی ہے۔ خود یہ تاریخ سے بھی ناواقفیت کا نتیجہ ہے، بلکہ دیدۂ بینا کے ساتھ گھر ، سماج اور موجودہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آئیڈیاز کی سطح پر تصادم ہی سے کاروبار ہستی مزین ہے۔ آئیڈیاز میں فرق نہ ہو تو پھر کسی کو کسی سے اختلاف کی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ سود پر مبنی معیشت سے اختلاف نہ ہوتا تو occupy wall street movement کی حیثیت کیا رہ جاتی۔ کیا سود سے آزادمعیشت کی آواز انتہاپسندانہ ہے؟ کارپوریٹس کو اپنی فیکٹری کے لیے ہزار ہزار ایکڑ زمین چاہئے۔ جو لوگ اپنی آبادیوں سے اجاڑ دیئے جاتے ہیں، ان کی تحریکوں کا ردعمل کیا انتہا پسندانہ ہے؟ کیا دونوں کے مفادات کی تکمیل یکساں ہوسکتی ہے؟ feminist movement چاہتی ہیں کہ عورتیں آزاد ہوں، بیوی اور ماں بننا ان کی ذات کی بلند پرواز میں زنجیریں ہیں۔ دوسری طرف motherhood کی تحریکیں آواز لگارہی ہیں کہ خواتین اپنی نسوانیت کو فراموش نہ کریں۔ گھر میں بچے بالغ ہونے کے بعد چاہتے ہیں کہ انہیں فلم اور نیٹ کے استعمال کی کھلی چھوٹ ملے۔ والدین اگر ضابطہ بندی کرتے ہیں تو کیا یہ فسطائیت ہے؟ کیا یہ بالغ لڑکوں کی آزادی سلب کرنا نہیں ہے؟
قرآن ازل تا ابد حق وباطل کی کشمکش کی ایک محفوظ داستان ہے۔ قصہ آدم وشیطان سے لے کر انبیاء کا اپنی اقوام کے ساتھ تصادم قرآن کے ہر صفحہ پر موجود ہے۔ معرکہ موسی وفرعون حق وباطل کی کشمکش کی منہ بولتی تصویر ہے بلکہ فرعونیت اور جمہوریت ، جبر کے نظام اور آزادئ ضمیر کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے انکار کی دلیل ہے۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی ایک صدی پر مشتمل تاریخ گواہ ہے کہ نظریات کی سطح پر اختلاف سماجی سطح پر زندگی کی راہوں میں قدم قدم پر کشمکش کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں اور ہر نظریہ سیاسی سطح پر مکمل غلبہ وتسلط چاہتا ہے، جس کے لیے گزشتہ صدی میں سو سے زیادہ سرد جنگ لڑی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تصور حیات (world view) کا اختلاف نظریاتی تصادم کو جنم دیتا ہے، اور نظریاتی تصادم غلبہ وتسلط چاہتا ہے۔
سیرت نبویؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کی خدا مرکزیت کی تعبیر، آزادئ ضمیر اور مساوات کی دعوت سماج کے ’’طبقہ اشرافیہ‘‘ اور چودھریوں کی چودھراہٹ کے لیے موت کا پیغام تھا، لہذا کشمکش کے مرحلوں سے آپؐ کو گزرنا پڑا، اور آخرکار آپ کا مشن پوراہوا، ھو الذی أرسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔۔۔۔
(ایس امین الحسن، )
داعی سے استقامت ہی مطلوب ہوتی ہے
عثمانی خلافت کے سقوط کے معاََ بعد بیشتر موجودہ تحریکات اسلامیہ کا ظہور ہوا، ظاہری استعمار کا خاتمہ ہوا، اور الحمدللہ مسلمانوں کی انفرادی واجتماعی زندگیوں کا اسلامی نقشہ مرتب ہوا۔ بے کم وکاست اسلام کی دعوت کا شغل عام ہوا، مختلف مراحل سے گزر کر معاملہ اسلامی انقلاب تک آیا، کوششیں ہوئیں اور ہورہی ہیں، لیکن اب تک کہیں بھی ۱۰۰؍فیصدی کامیابی نہیں حاصل ہوسکی۔ عدمِ کامیابی انسان کو اپنے احتساب پر ابھارتی ہے، یہ ایک فطری بات ہے۔ ادھر عرب بہاریہ کے نتائج اور دوسرے واقعات کے بعد کچھ ایسے خیالات سامنے آرہے ہیں کہ اسلام کی تعبیر دورِ جدید کے معتبر پیمانوں سے کی جائے، اور اسلام کو عام عالمی رجحانات کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔ اگر دنیا لفظ اسلام سے وحشت محسوس کرتی ہے تو اسے ترک کرکے دوسرے عناوین سے متعارف کرایا جائے۔ اگر یہ حالات کا فوری ردعمل ہے تو خیر، ورنہ یہ نامناسب رویہ ہے۔ حالات کا جبر یقیناًبہت ہوتا ہے، لیکن ایسے میں داعی سے استقامت ہی مطلوب ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ آیات بے ساختہ یاد آجاتی ہیں، جن میں حالات کے جبر اور دباؤ کے نتیجے میں اہل ایمان اپنے ایمان میں زیادتی محسوس کرتے ہیں، کا مضمون بیان ہوا ہے۔
حالات کا جبر اور دباؤ پہلے رویے کو تبدیل کرتا ہے، پھر طبیعت میں لوچ پیدا ہوتی ہے، اور جب نفس اس کیفیت کا عادی ہوجاتا ہے، تو ذہن فکری پناہ گاہیں تلاش کرتا ہے۔ ملوکیت کے جبر سے پیدا شدہ تصوف کے نام سے جتنے انحرافات واقع ہوئے سب اسی کیفیت کے عملی شواہد ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ آدمی سچی بات من وعن، بے کم وکاست سب کے سامنے کھول کھول کر کہہ دے، اس سے حق بھی واضح ہوجاتا ہے، اور بہتوں کا فائدہ بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف بات لگاکر کہنا، اِ س سے نہ پوری بات واضح ہوپاتی ہے، اور نہ مخاطب پوری طرح مطمئن ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ نانک حضرت فریدالدین گنج شکر کے خلفاء میں تھے، لیکن آج حال یہ ہے کہ ان کے نام پر ایک پورا دھرم وضع کرلیا گیا ہے، فاعتبروا یا اولی الابصار۔
(زبیر ملک فلاحی، لکھنؤ)
استبدادی نظام حکومت میں تحریک اسلامی کا کیا طریقہ کار ہونا چاہئے؟
استبدادی حکومت کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کا ہدف رکھنے والی اسلامی تحریک کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ تبدیلی کے لیے طریقہ کار کیا اختیار کیا جائے۔ مصر اور بنگلہ دیش کے حالیہ تجربات نے اس سوال کو اور زیادہ اہم بنادیا ہے۔ تشدد کا راستہ اسلامی تحریک کے لیے سم قاتل ہے، اور امن کی آواز پر خواہ وہ کتنی ہی قوت سے بلند کی جائے اور خون شہادت سے اس کو کتنا ہی رنگین کردیا جائے، استبدادی طاقتیں ذرا کان نہیں دھرتی ہیں۔ اس لیے اسلامی تحریک کو کچھ نئی راہیں ڈھونڈنا ہوں گی، انہیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ استبدادی حکومتوں کی طاقت کے سرچشمے کہاں ہوتے ہیں، اور ان کو عمر طویل کہاں سے حاصل ہوتی ہے۔
عالم اسلام میں پائے جانے والے استبداد کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں، ان کو مذہبی اداروں کی مہرتصدیق بھی حاصل ہوتی ہے، اور بیرونی قوتوں کی پشت پناہی بھی، لیکن ان کی اصل طاقت فوج اور پولیس ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ادارے اور ادب وثقافت کے مراکز جو کہیں اور بہت طاقتور سمجھے جاتے ہیں، ان ملکوں میں تابعِ محض ہوتے ہیں۔ ذہن بدلنے کے پروگرام کی خاص توجہ فوج اور پولیس کی طرف ہونا ضروری ہے۔ اگر وہاں تبدیلی آئے گی تو استبدادی حکومتوں کی چولیں ہل سکتی ہیں۔
یہ ایک سرسری تجزیے کا حاصل ہے، گہرا اور ماہرانہ تجزیہ طاقت کے دوسرے سرچشموں کی نشاندہی کرسکتا ہے، بہر صورت ان سرچشموں تک نفوذ کرنا ناگزیر ہے، محض عوامی تائید کافی نہیں ہے۔
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی اسلامی تحریک کو سیدھے سادے بے نفع اور بے ضرر لوگوں تک اپنا پیغام روایتی انداز سے پہونچانے کے بجائے یا اس کے علاوہ سماج کے طاقتور عناصر کو اپنے پیغام سے متأثر کرنے کا ہدف طے کرنا ہوگا، یہ ضروری ہے سماج کی اصلاح کے لیے بھی، اور عوام کی سیاسی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے بھی۔ ورنہ جس صورتحال کا سامنا اسلامی تحریک کو بنگلہ دیش اور مصر میں کرنا پڑا اسی طرح کی صورتحال تحریک اسلامی کو ہندوستان کے کسی چھوٹے سے گاؤں اور چھوٹے سے محلے میں درپیش ہوسکتی ہے، کیونکہ استبداد ہرجگہ ہے، بس شکلیں مختلف ہیں۔
(ڈاکٹر محی الدین غازی، ممبر مجمع فقہاء الشریعہ، امریکہ)
تحریک اسلامی کا مستقبل کیا ہے؟
تحریک اسلامی نے اپنا جو دور پورا کرلیا ہے، اس نے عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو بہت کچھ دیا ہے۔ دین کی جامعیت کا شعور، اور اجتماعی زندگی میں دین کی تعلیمات سے روگردانی کا ابطال، اسلام کی موزونیت اور صالحیت پر اعتماد، اس کی طرف رجوع اور اسلام کی عظمت رفتہ کی بازیافت کا عزم آج کسی مخصوص جماعت یا حلقے تک محدود نہیں، بلکہ پورے مسلمان معاشرے میں عام ہوچکا ہے۔ سیاسی نظم واتحاد اور اقتصادی صلاحیت کے اعتبار سے بھی آج اسلامی دنیا وہاں نہیں جہاں بیسویں صدی کے آغاز میں تھی۔ ان روش پہلوؤں کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہئے کہ یہ خیال غلط ثابت ہوچکا ہے کہ اسلام کی تفہیم وترجمانی کا کام اس حد تک انجام پاچکا ہے کہ اب بجز ضد اور ہٹ دھرمی، تعصب اور مفاد پرستی، اور جبروتشدد کے، اسلام کے قبول عام اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں کوئی اور رکاوٹ باقی نہیں رہ گئی ہے، یا یہ کہ ہمارے عوام اسلام چاہتے ہیں، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی عمل کے ذریعہ اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ابھی فکری اور علمی سطح پر بہت کچھ کرنا باقی ہے، دور جدید کے عام انسانوں کو دعوت کا مخاطب بنانے کا عمل اور اس کے تقاضوں کی طرف توجہ، ابھی پوری طرح شروع بھی نہیں کی جاسکی ہے، اور مسلمانوں کی اسی (۸۰) فیصدناخواندہ اکثریت میں مذہب کے نام پر خرافات اور مذہبیت کے سہارے نیم جاہل مذہبی پیشواؤں کا وہ تسلط آج بھی قائم ہے، جسے ختم کئے بغیر نہ اسلامی انقلاب لایا جاسکتا ہے، نہ معاشی پسماندگی دور ہوسکتی ہے۔
تحریک اسلامی کا مستقبل کیا ہے؟ اس سول کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ادھورے کاموں کو مکمل کرنے اور عصر حاضر میں اسلامی تعمیر نو کے تقاضوں کو پہچان کر انہیں پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ اس طرح یہ بات بھی فیصلہ کن ہوگی کہ گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نے تحریک کے فرد اور لائحہ عمل میں جن نقائص اور کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے ان کو پہچاننے اور دور کرنے میں تحریک کی نئی قیادت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ یہ نئی قیادت بانیانِ تحریک کی مقلدِ محض ثابت ہوتی ہے یا اُن ہی کی طرح اجتہادی فکر سے کام لیتی ہے۔ مستقبل کی تعمیر میں اس کی نگاہیں اپنے ماضی ہی کی طرف رہتی ہیں اور وہ اُسی سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتی ہے یا معاصر حالات کے تجزیے اور مستقبل کے بارے میں مبنی بر بصیرت اندازوں کی روشنی میں لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔ ایک راہ تحریک کے لیے جمود اور بالآخر موت کی راہ ہے اور دوسری راہ پر اقدام، کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے۔