Skip to main content

عکسِ دروں

Submitted by talhaoffice03@… on
 اردو
عکسِ دروں

آج برگر ،پیزا، موبائل گزیدہ نسوانی نسل کی  عمومی گفتگو کچھ اس طرح ہوثی ہے ۔ شادی کی ایک تقریب میں  چار ،پانچ سہیلیاں بیٹھی  تھیں ۔ سنیئے ذرا کیا باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔ 

"یار (ذرا کھینچ کر) میرے میاں بڑے سدھو ہیں ۔ پتہ نہیں بچپن میں کسی نے ایک شیمپو کے بارے میں رائے دے دی کہ بڑا اچھا ہے بال مضبوط کرتا ہے ۔۔ آآآج تک وہی شیمپو چل رہا ہے "

( کھی کھی کھی ۔) اچھا یار ( کھینچ کر)۔ میرے میاں کا تو  ٹیسٹ ہی ڈیویلپ نہیں ہوا ۔ شادی والے دن  جب میں واش روم میں گئی تو مجھے رونا ہی آگیا ۔ سر پیٹ لیا ۔ ایک صابن ، ایک پیسٹ ،ایک شیمپو اور شیمپو بھی وہ  جو میں نے زندگی میں  کبھی استعمال ہی نہیں کیا تھا ۔ " 

"اچھا؟؟ نہ کر یار !! ایسے تو نہیں ہو سکتا " ہاں آں بتا تو رہی ہوں  " تیسری بولی۔

"چلو یہ توبندہ برداشت کر ہی لیتا ہے ۔ ایک میرے میاں ہیں ۔ ہر وقت منہ پر بارہ بجائے رکھتے ہیں ۔ بندہ کوئی باتیں کر لیتا ہے ۔ کوئی گپ شپ ۔ نہیں ہر گز نہیں ۔ بس جو پوچھو جواب دے دیا ۔ ضرورت پڑی تو بات کر لی اور پھر وہی زبا بندی ۔۔۔ یااار مجھے تو حسرت ہی ہے ۔ وہ جو دیبا کا میاں ہے ناں ۔ سچی ! اتنا گپی ہے ،اتنا گپی ہے ہر وقت ہنساتا ہی رہتا ہے " "ہیں ایں اچھاااا"

دیبا بات تو کر رہی تھی ایک دن میں سمجھی ایویں شوخی ہو رہی ہے " چوتھی نے اظہار خیال فرمایا: پانچویں نے دکھڑا چھیڑا،

"ارے کیا بتاوں ہمارا فیملی ٹور تھا مری کا ۔ میں بڑی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ اللہ کرے یہ سسر میاں نہ ساتھ  چل پڑیں ۔ 

میں نے اپنے میاں سے کہا ذرا اسے ٹالو ۔ پر وہ کہاں ٹلنے والے تھے ۔ ساتھ جا کر ہی چھوڑا ۔ یار ،سارا مزہ کرکرا کر دیا ۔ بار بار ٹوک رہے تھے سر ڈھانپو مرد آ رہے ہیں ۔ قہقہے نہ لگاؤ ارد گرد مرد پھر رہے ہیں " مجھے سخت غصہ آیا میں تو ہوٹل کے کمرے میں جا کر لیٹ گئی ۔ کچھ دیر بعد میرے میاں آئے منانے کے لئے ۔ میں نے وہ سنائیں وہ سنائیں ۔ بے چارہ روہانسا ہو کر کہنے لگا ۔" اچھا یار اب بس بھی کرو ۔ آ جاؤ ناں" ۔ اس کی منتیں کرنے پر میں چلی تو گئی ۔ پر مزہ نہ آیا "

، سنو تمہاری بیٹی کے بال کتنے خوبصورت ہیں کیا لگاتی ہو ؟؟

کچھ نہیں فیملی بال ہیں مجھ پر گئی ہے ۔ اس کی نانی کے بال بھی بہت  خوبصورت ہیں " لیکن تمہارے بیٹے کے بال تو ہلکے لگ رہے ہیں ۔ ہاں یہ اپنے باپ کی ڈٹو کاپی ہے ۔ناک نہیں دیکھی پھینی سی" 

اتنے میں ایک کی   کلاس فیلو کا فون آ گیا حال احوال کے بعد مکالمہ کچھ یوں ہوا

"سناو شادی ہوئی ؟ میاں کیا کرتے ہیں ؟ " نہیں یار کہیں رشتہ ہی نہیں ہوا۔اب تو  آس  ہی ٹوٹ گئی ہے ۔  لوگ کہتے ہیں عمر زیادہ ہو گئی ہے ۔ " 

" نییں یار مایوس نہ ہو ۔ تم برسر روزگار ہو ۔ کہیں نہ کہیں ہو ہی جائے گا ۔ اب زیادہ نخرے نہ دکھانا ناں ۔ کوئی سیکنڈ میرج والا ہی مل جائے  تو کر لینا ۔ بھلا شادی کے بغیر بھی کوئی زندگی یے "؟ 

"ہاں کوئی تو ہو ناں   محفل میں بیٹھ کر بیوی  جس کا تمسخر  اڑا سکے ، " کاتبِ کرام نے سرگوشی کی

دور  مدینہ کی بستی میں کلام رسول کی باز گشت سنائی دے رہی تھی ۔"تم  تیس تیس سال تک باپوں کے گھر بیٹھی رہتی ہو۔ پھر جب شادی ہو جاتی ہے ۔تو شوہر کی شکایت کرتی ہو