Skip to main content

اردن کے انتخابات ؛ووٹ اخوانیوں کے، کرسیاں دوسروں کی

Submitted by talhaoffice03@… on
 اردو
اردن کے انتخابات ؛ووٹ اخوانیوں کے، کرسیاں دوسروں کی

دس ستمبر کو اردن کے مجلس النواب (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ مراقش کی طرح یہاں بھی انتخابی نظام کچھ اس طرح تشکیل دیاگیا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ انفرادی امیداروں کیلئے اٹھارہ اضلاع میں ستانوے حلقے بنائے گئے ہیں، جبکہ متناسب نمائندگی کے ذریعے اکتالیس نشستوں پر پارٹیوں کے نمائندے منتخب کئے جاتے ہیں، جن میں سے بارہ نشستیں اقلیتوں اور اٹھارہ خواتین کے لیے وقف ہیں۔ پینسٹھ رکنی ایوان بالا(سینیٹ یا راجیہ سبھا) کا تقرر شاہی فرمان کے ذریعے ہوتا ہے۔
ساری اسلامی دنیا کی طرح یہاں بھی غزہ اور فلسطین انتخابی مہم پر چھائے رہے۔ غرب اردن سے چونکہ تھوڑی بہت آمد و رفت ہے اس لیے یہاں کے لوگ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم سے زیادہ اچھی طرح آگاہ ہیں۔اردن میں اخوان المسلمون اپنے سیاسی بازو جبهة العمل الإسلامي یا اسلامی ایکشن فرنٹ (IAF) کے نام سے پارلیمانی سیاست میں حصہ لیتی ہے۔غزہ اور فلسطین کے معاملے میں فرنٹ کا موقف بہت ہی دوٹوک ہے۔ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے خاتمے اور غرب اردن سے وابستگی کے معاملے میں IAFکسی مداہنت کی قائل نہیں۔ انتخابی مہم کے دوران’ نہر یا بحر فلسطین ‘فرنٹ کا انتخابی نعرہ تھا۔
فرنٹ کا یہ دوٹوک موقف بادشاہ سلامت کے لیے ناقابل قبول ہے اور ان معاملات پر اخوانیوں کو کئی بار شاہی سرزنش کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن غزہ مظالم نے معتدل مزاج لوگوں کو بھی سخت مشتعل کر دیا ہے بلکہ اسرائیلی دانش وروں کے خیال میں عرب روشن خیال بھی اب انتہا پسند ہوگئے ہیں۔
انتخابی مہم کے آغاز سے ہی فرنٹ کا پلہ بھاری تھا۔ انتخابی فضا دیکھ کر اسرائیل اور مغربی دنیا کو یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ جیسے صدر محمد مرسی اہلِ غزہ کے لیے حمایت و نصرت کا استعارہ ثابت ہوئے، کہیں ویسی ہی صورت حال غرب اردن میں نہ پیدا ہوجائے۔ غیر جانب دار مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے غرب اردن کے شہری ڈھانچے کو برباد کرکے پورے علاقے کو انسانی حیات کے لیے ناقابل برداشت بنانے کی جو مہم شروع کی گئی ہے وہ اردن میں متوقع سیاسی تبدیلی کامقابلہ کرنے کی پیش بندی ہے۔
تاہم اسرائیل اور مغربی دنیا کو اطمینان تھا کہ انتخابی نظام میں خاصی موثر چھلنیاں نصب کردی گئیں ہیں اور مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے ان سے گزرنا فرنٹ کے لیے نا ممکن حد تک مشکل ہے۔اردنی معاشرے میں قبائلی روایات خاصی گہری ہیں جن کی وجہ سے آبادی کا ایک تہائی حصہ قومی سیاست و دھارے سے کسی حد تک الگ ہے۔
انتخابی نتائج کے مطابق فرنٹ56.24 فیصد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہا۔حکومت نواز چارٹر پارٹی نے 11.35 فیصداور سلفی رجحان کی حامل نیشنل اسلامی پارٹی نے 10.62فیصد ووٹ لیے۔ جماعت الارادہ چوتھے نمبر پر رہی جسے 8.3 فیصد ووٹ ملے۔تاہم مہمل انتخابی نظام کی بناپر چھپن فیصد سے زیادہ ووٹ لینے والے فرنٹ کو ایک سو اڑتیس رکنی ایوان میں اکتیس جبکہ چارٹر پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ کے عوض اکیس نشستیں ملیں۔ آٹھ فیصد ووٹ لینے والی الارادہ کو انیس نشستیں ملیں اور ووٹوں کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر آنے والی نیشنل اسلامی پارٹی سات نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر آگئی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اسلامک ایکشن فرنٹ حق اقتدار سے محروم رکھے جانے پر مشتعل نہیں۔ نتائج کا اعلان ہوتے ہی فرنٹ کے ترجمان وائل السقا کا کہنا ہے کہ نظریاتی تحریک کے لیے حکومت سازی سے زیادہ اہم ذہن سازی ہے جس میں فرنٹ کامیاب رہا۔
آئی اے ایف کے متعمد عام مراد العضايلة نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرنٹ کو کرسی کا شوق نہیں۔ہم ان انتخابات کو عالمی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔اردن کا ایوان نمائندگان، اسرائیلی حکومت کے انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط ہونا چاہیے۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی انتخابات جیت گئے تو اسرائیلی انتہاپسندوں کو امریکی دائیں بازو کی نصرت واستعانت حاصل ہوجائے گی اور ہم اسی کے مقابلے کے لیے صف بندی کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت مقامی مسائل خاص طور سے معیشت کو بہتر بنانے اور بےروزگاری کو کم کرنے میں اپنی صلاحیت کھپائے جو اکیس فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ فلسطینیوں اور دنیا بھر کے مستضعفین کو سیاسی و اخلاقی مدد فراہم کرنا ہماری ذمہ درای ہے۔عوام نے ہمیں جو حق نمائندگی (مینڈیٹ) دیا ہے اسے ہم اسرائیلی جبر کے خلاف علاقے میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
نتائج کے سرکاری اعلان کے ساتھ ہی وزیر اعظم ڈاکٹر بشر الخصاونة نے استعفیٰ دے دیا۔ بادشاہ سلامت نے ہارورڈ کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر جعفر حسن کو نیا وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔ خیال ہے کہ اگلے ہفتے نئی مجلس النواب کے حلف اٹھاتے ہی اسلامک فرنٹ کو حکومت سازی کی دعوت دی جائے گی لیکن غالب امکان ہے کہ فرنٹ ڈاکٹر جعفر حسن کی حکومت جاری رکھنے کے حق میں قرارداد منظور کرائے گا۔
اسرائیلی حکومت کو آئی آے ایف کی کامیابی پر سخت تشویش ہے۔ تل ابیب کے سیاسی پندٹ اسے 2006 کی صورت حال قرار دے رہے ہیں جب فلسطین کے انتخابات میں حماس نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ اردن کے حالیہ انتخابات سے یہ بات بھی ثابت ہو رہی ہے کہ عرب دنیا میں 1940 سے جاری بدترین تشدد کے باوجود اخوان المسلمون نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ اس کی جڑیں عوام میں مزید گہری ہوچکی ہیں جو یمن، مصر، الجزائر، تیونس، مراقش اور اب اردن میں اس شان دار کامیابی سے ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ رجحان برصغیر میں بھی نظر آرہا ہے کہ صف اول کی پوری قیادت کے پھانسی کے تختے پر چڑھنے اور پندرہ سال تک جاری رہنے والے بدترین تشدد کے بعد جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش میں کام کا جیسے ہی موقع ملا، حالیہ عوامی جائزے میں وہ دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔