Skip to main content

طلبہ یونینز کی بحالی: امید کی کرن یا سراب؟

Submitted by admin on
Author
 اردو
Student Leaders Quaid e Azam

طلبہ یونینز کو دنیا بھر میں جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے۔کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونینوں  کے باقاعدہ انتخابات کروائے  جاتے ہیں۔  جن  میں تمام طلبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور اس طرح جمہوری طریقے سے طلبہ یونین منتخب ہوتی ہے جو طلبہ کی حقیقی نمائندہ ہوتی ہے۔ طلبہ یونین ایک تسلیم شدہ ادارہ ہوتی ہے جس کو عموما آئین تحفظ دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کا بنیادی انسانی حقوقی کا چارٹر بھی طلبہ کے یونین سازی کے حق کو تسلیم کرتا ہے ۔ سٹورنٹ یونین طلبہ کی تسلیم شدہ نمائندہ ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں  کی انتظامیہ اور حکومتیں یونین کی دی گئی تجاویز کو سننے اور اس پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہیں ۔ یونین کے منتخب عہدیداران میں سے ایک یا دو لوگ عموما یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے بھی ممبر ہوتے ہیں۔ اور یونیورسٹی کے بجٹ کی جانچ پڑتال کرنے اور سنڈیکیٹ کے فیصلوں میں رائے دینے کا حق رکھتے ہیں۔ سٹوڈنٹ یونین کے اس سارے عمل سے گزر کر مستقبل کی قومی قیادت تیار ہوتی ہے۔

پاکستان میں بھی سٹوڈنٹ یونینز کا کردار قابل قدر رہا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد سے سٹوڈنٹ یونینز کے انتخابات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ان یونینز کے تحت طلبہ کے لیے بہت سی صحت مند سرگرمیوں کا انعقاد ہوتا رہا۔ مشاعرے ، مباحثے، کھیلوں کے مقابلے ، بک فئیر ، ادبی مقابلے اور بہت سے دیگر پروگرامات جس سے طلبہ کی ذہنی اور فکری صلاحتیں نشونما پاسکیں۔ طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے بھی یونینز کا کردار قابل قدر رہا۔ فیسوں میں اضافے کا معاملہ ہو یا ٹرانسپورٹ کے مسائل ، ان سب کے لیے  طلبہ یونینز ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہیں۔ اس سارے عمل سے ہی پاکستان میں بہت سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ۔ جن میں ، جہانگیر بدر، جاوید ہاشمی ، لیاقت بلوچ جیسے نام شامل ہیں جنہوں نے قومی سیاست میں مثبت کردار ادا کیا۔

پھر 1984 ء کا وہ بدقسمت سال آپہنچا۔ جب مارشل لا حکومت نے سٹوڈنٹ یونین کو اپنی آمریت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ایک صدارتی آرڈینینس کے ذریعے ان پر پابندی عائد کر دی ۔ اس پابندی کے خلاف ملک بھر میں طلبہ نے متحد ہو کر زبردست تحریک چلائی لیکن مارشل لا حکومت نے اس تحریک کو بڑی بے رحمی سے کچل دیا۔ تحریک کی قیادت کرنے والے  طلبہ کو جیلوں میں ڈالا گیا ، کوڑوں کی سزائیں ہوئیں ، ڈگریاں تک چھین لی گئیں۔ کئی طلبہ مظاہروں کے دوران پولیس کی گولیوں کا نشانہ ہے۔

اس پابندی کے اثرات بہت بھیانک نکلے۔ جمہوری عمل رک جانے سے طلبہ تنظیموں میں تشدد کا عنصر در آیا - نظریاتی بنیادوں کی بجائے صوبائیت ، زبان اور فرقے کی بنیاد پر طلبہ تنظیموں کی بھرمار ہو گئی۔ حکومتوں نے اپنی اجارہ داری کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں  بدمعاشوں کے جتھے استعمال کیے جس کے نتیجے میں بار بار کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کمپس میدان جنگ بنتے رہے اور کئی طلبہ کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس غیر آئی پابندی کو طلبہ نے بار بار عدالتوں میں چیلنج بھی کیا اور کئی بار عدالتوں نے اس پابندی کو کالعدم قرار دے کر طلبہ یونینز کو بحال کرنے کے احکامات بھی دیے ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ مارشل لا حکومتوں کے ساتھ ساتھ جمہوری حکومتیں بھی اس پابندی کو برقرار رکھنے میں ہی مصروف رہیں۔ 

اس حوالے سے امید کی کرن تب نظر آئی جب چیف جسٹس آف پاکستان نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں سٹوڈنٹ یونین کو بحال کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اس کے بعد وفاقی وزارت تعلیم نے بھی تمام وفاقی جامعات میں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے ایک کمیٹی بنادی ہے جو اپنا کام شروع کر چکی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کیا یہ بیل واقعے منڈھے چڑھتی ہے یا یہ معاملہ پھر پہلے کی طرح سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔