نظم : تنبیہ
شاعروں کے مسائل سے واقف ہو تم
پھر بھی ضد کر رہی ہو
تم سے پہلے بھی گزری کئیں ایسی ہیں
اپنی آنکھوں میں سپنے سجائے ہوئے
بوجھ امیدوں کا دل میں اٹھائے ہوئے
خون اپنی رگوں میں جماۓ ہوئے
ان سبھی کو مری ایک ساعت میسر نہ آئی کبھی بھی ،
کسی کو بھی اک پل خوشی کا نہیں دے سکا میں ۔
دیکھنے لگ گیا زندگی کو کھلی آنکھوں سے جب